احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
حضرات! یہ ہے وہ برہان قاطع اور حجت ساطع۔ جس کے بل بوتے پر مرزاقادیانی مسیح علیہ السلام کی قبر کشمیر میں تیار کرنے والے ہیں۔ جناب والا کی جغرافیہ دانی کا صدق دل سے اعتراف مگر یہ تو بتایا ہوتا کہ بلاد شام سے بلادھند کی طرف حضرت مسیح کی ہجرت کا ذکر آپ نے کس ’’پورانی تاریخ‘‘ میں دیکھا؟ اس کا مصنف کون ہے۔ کب لکھی گئی؟ محل نزاع میں ضروری تھا کہ آپ ان تاریخوں کی عبارتیں بقید صفحات نقل کرتے تاکہ آپ کی صداقت واضح ہوتی۔ پھر جناب کے مذکورہ ذیل الفاظ بھی اپنے اندر حقانیت کی کچھ کم کشش نہیں رکھتے۔ مواقع برہانیہ اسی قسم کے الفاظ کے مستحق ہیں۔ ’’سفر کیا ہوگا، گئے ہوںگے، یقینی امر ہے، ٹھہرے ہوںگے، کوچ کیا ہوگا، یقینی ہے سکونت اختیار کی ہوگی، رہے ہوںگے۔‘‘ اصل یہ ہے کہ وہمیات ووساوس کو وحی والہام قرار دینے والے حضرات کا ہموارہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ واقعات وحقائق کے میدان میں اسی طرح سپر انداز ہوا کرتے ہیں۔ پھر اگر کسی نے ان کو ان کی غلطی پر سرزنش کی تو وہ یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیتے ہیں کہ محجوب ہماری حقیقت کو کیا سمجھیں۔ بہتر ہوتا کہ مرزاقادیانی بجائے تاریخی ثبوت کی کلفت بے جا کے اپنے قدیم شیوہ وانداز کے مطابق فقط اتنا کہہ دیتے کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے۔ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ مجھے مکرر وحی ہوئی ہے اور باربار بذریعہ الہام اطلاع دی گئی ہے۔ (جس کی تسلیم مجھ پر اسی طرح لازم ہے۔ جیسے تورات وانجیل وقرآن کی تسلیم) کہ حضرت مسیح کی قبرسری نگر کشمیر محلہ خانیار میں ہے۔ بس قصہ ختم تھا۔ جب کسی ’’ملہم‘‘ کے پاس کاربراری کے لئے ترشی ترشائی وحی موجود ہو تو اس کو علمی موشگافیوں کی کیا ضرورت ہے۔ رہی پبلک، معتقدین اس کو بھی اسی طرح تسلیم کر لیتے۔ جیسے منکوحہ آسمانی، انجام آتھم، مولوی ثناء اﷲ صاحب کی موت وغیرہ پیشین گوئیاں، منکرین ومکذبین ومشککین ایسی خیال آرائی وافسانہ سازی سے کب متاثر ہوسکتے ہیں۔ مزید برآں مرزاقادیانی کا یہ ارشاد بھی آنے والے تمام متنبیوں کے لئے سرمۂ چشم بصیرت رہے گا اور کچھ بعید نہیں کہ وہاں شادی کی ہو۔ افغانوں میں ایک قوم عیسیٰ خیل کہلاتی ہے۔ (بلکہ ایک مشہور قصبہ کا نام بھی ہے) کیا تعجب ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کی ہی اولاد ہوں۔ علی ہذا القیاس افغانوں میں ایک قوم اور ایک قصبہ کا نام ’’موسیٰ خیل‘‘ ہے۔ بنابریں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی یقینی طور پر ادھر آئے ہوںگے۔ نیز افغانوں کا یوسف زئی قبیلہ حضرت یوسف صدیق علیہ السلام کی اولاد ہوگا۔ بقول آپ کے یقینی امر ہے کہ یوسف صدیق مصر سے صوبہ افغانستان