احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
لہ خسف القمر المنیر وان لی غسا القمران المشرقان اتنکر ترجمہ: اس کے لئے چاند کا خسوف ظاہر ہوا، اور میرے لئے چاند اور سورج دونوںکا، اب کیا تو انکار کرے گا۔ (اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳) واضح رہے کہ شعر کا یہ غیر مہذب اور پھسپھسا ترجمہ بھی خود مرزاقادیانی علیہ ما علیہ نے کیا ہے۔ اس دجال کو بے ادبی کرتے اور پھر جھوٹ بولتے ذرہ بھی شرم نہیں آتی۔ آخر عجمی نبوت تو ہے۔ نتیجۃ المبحث یہ نہایت اجمالی خاکہ ہے۔ اس نبوت کا جو یونین جیک کے ظل عاطفت میں ایک عجمی نژاد مغل نے رچائی۔ مسیلمہ اور اسود کو کہاں حوصلہ تھا کہ وہ اتنی صریح جھوٹی بڑیں ہانکتے۔ مغیرہ بن سعید مقتول رافضہ اور مختار بن ابی عبید ثقفی، قتیل مصعب بن زبیر کوکب یارا کہ وہ اتنی شیخی پر اتر آئیں۔ کیونکہ عرب جھوٹے بولنے کو دامن شرافت پر بدترین دھبہ خیال کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جھوٹ بولنے سے انسان سوسائٹی میں ذلیل شمار ہوتا ہے۔ اس کی وقعت خاک میں مل جاتی ہے۔ حتیٰ کہ سخت ترین دشمن کے حق میں بھی صدق ودیانت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ قصہ ہر قل وابوسفیان اس کی زندہ شہادت موجود ہے۔ انتہا ہے کہ دور جاہلیت کا مشہور جنگجو، رئیس مہلہل بن ربیعہ کسی شعر میں اتفاقاً غلو آمیز مبالغہ کر بیٹھا۔ مگر آج تک کذاب لکھا جارہا ہے۔ راعی نمیری (شاعر اسلامی) بذلہ سنجی کے رنگ میں کبھی کوئی ظریفانہ مضمون باندھ دیتا، مگر تذکرہ نویسوں میں کذاب مشہور ہے۔ رہا یزید بن ابی انیسہ اس کو دعوائے نبوت کی توفیق ہی نہیں ہوئی۔ وہ تو ایک عجمی نبی کے لئے پیشین گوئی کر کے دار البوار کو سدھار گیا۔ البتہ بیان بن سمعان تمیمی کو کسی قدر حوصلہ ہوا تھا۔ وہ تصریح کر گیا کہ: ’’علاوہ نبوت کے بطور تناسخ، خود روح الٰہی مجھ میں حلول کئے ہوئے ہے۔‘‘ (الفرق ص۱۲۷) گو قاضی یار محمد مرزائی کی تصریح کے مطابق مرزاقایانی کے خدا کا معاملہ مرزاقادیانی کے ساتھ حلول روح سے بہت ارفع واعلیٰ ہے۔ نیز بیان بن سمعان نے اپنی سادہ لوح سے دعویٰ کیا کہ قرآن شریف کی آیت سے ایں جانب مراد میں ہوں۔ ’’ہذا بیان