احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
کی طبیعت کا کیا حال ہے۔ شیخ حامد علی نے کہا کچھ خراب ہوگئی ہے۔ میں پردہ کراکے مسجد میں چلی گئی تو آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ جب میں پاس گئی تو فرمایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔ لیکن اب افاقہ ہے۔ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی اور آسمان تک چلی گئی۔ پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہوگئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس کے بعد آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔ خاکسار نے پوچھا دوروں میںکیا ہوتا تھا۔ والدہ صاحب نے کہا ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے تھے اور بدن کے پٹھے کھچ جاتے تھے۔ خصوصاً گردن کے پٹھے اور سر میں چکر ہوتا تھا اور اس وقت آپ اپنے بدن کو سہار نہیں سکتے تھے۔ شروع شروع میں یہ دورے بہت سخت ہوتے تھے۔ پھر اس کے بعد کچھ تو دوروں کی ایسی سختی نہیں رہی اور کچھ طبیعت عادی ہوگئی۔ خاکسار نے پوچھا کہ اس سے پہلے تو سر کی کوئی تکلیف نہیں تھی۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا پہلے معمولی سردرد کے دورے ہوا کرتے تھے۔ خاکسار نے پوچھا کیا حضرت صاحب پہلے خود نماز پڑھاتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے کہا کہ ہاں۔ مگر پھر دوروں کے بعد چھوڑ دی۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۳) شہادت نمبر۵ مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ: ’’مجھے مراق کی بیماری ہے۔‘‘ (ریویو ص۴۵، اپریل ۱۹۲۵ئ) شہادت نمبر۶ مرزاقادیانی نے اپنی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ: ’’مجھ کو مراق ہے۔‘‘ (ریویو، اگست ۱۹۲۶ئ) شہادت نمبر۷ مراق کا مرض مرزاقادیانی کو موروثی نہ تھا۔ بلکہ یہ خارجی اثرات کے ماتحت پیدا ہوا تھا اور اس کا باعث سخت دماغی محنت، تفکرات، غم اور سو ہضم تھا۔ جس کا نتیجہ دماغی ضعف تھا اور جس کا اظہار مراق اور دیگر ضعف کی علامات مثلاً دوران سر کے ذریعہ ہوتا تھا۔ (ریویو ص۱۰؍اگست ۱۹۲۶ئ) شہادت نمبر۸ مرزاقادیانی کی تمام تکالیف مثلاً دوران سر، درد سر، کمی خواب، تشنج دل، بدہضمی، اسہال، کثرت پیشاب اور مراق وغیرہ کا صرف ایک ہی باعث تھا اور وہ عصبی کمزوری تھا۔ (ریویو ص۲۶، مئی ۱۹۲۷ئ)