احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں مطالبہ کرتے ہیں کہ: ’’یاد رہے کہ کسی حدیث مرفوع متصل میں آسمان کا لفظ نہیں پایا جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لئے آتا ہے اور نزیل مسافر کو کہتے ہیں… اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کجا دضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤگے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیںگے۔ اگر کوئی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں اور توبہ کرنا اور تمام کتابوں کا جلا دینا اس کے علاوہ ہوگا۔ جس طرح چاہے تسلی کر لیں۔‘‘ (کتاب البریہ ص۲۰۷ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۲۲۵) الجواب الف… ہم نے کشف التلبیس میں جو دو حدیثیں درج کی تھیں ان کے متعلق یہ نہیں لکھا کہ ان میں آسمان کا لفظ موجود ہے۔ بلکہ ہم نے حدیث کے الفاظ کی مراد یہ بتلائی تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوںگے۔ کیونکہ حدیث کے لفظ نزول کامطلب ساری امت کے محدثین، مفسرین، محققین کے نزدیک آسمان سے ہی نازل ہونا ہے۔ ب… نقل حدیث سے پہلے ہم نے آیت ’’ما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ (جسم سمیت) اٹھایا جانا ثابت کیا تھا۔ جس کا قیامت تک مرزائیوں کے پاس کوئی صحیح جواب نہیں ہے اور رفع کا مطلب خود مرزاقادیانی کے نزدیک اٹھانا ہی ہے۔ باقی رہا آسمان پر اٹھایا جانا تو یہ لفظ الیہ سے ثابت ہے اور خود مرزاقادیانی نے بھی اسی آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کا علیین کی طرح اٹھایا جانا تسلیم کر لیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ ’’رفع سے مراد اس جگہ موت ہے مگر ایسی موت جو عزت کے ساتھ ہو جیسا کہ مقربین کے لئے ہوتی ہے کہ بعد موت ان کی روحیں علیین تک پہنچائی جاتی ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۹۹، خزائن ج۳ ص۴۲۴) نیز حضورﷺ کے متعلق لکھا ہے کہ: ’’ان کی روح مسیح کی روح کی طرح دوسرے آسمان میں نہیں اور نہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی روح کی طرح چھٹے آسمان میں بلکہ سب سے بلند تر ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۴۴، خزائن ج۳ ص۲۷۶)