احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
۲… مرزاقادیانی نے جو یہ لکھا ہے کہ: ’’وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں۔ ان سب کا ماننا فرض ہے۔ اگر وہ اس قول میں سچے ہیں تو پھر ختم نبوت کا وہ صحیح مفہوم کیوں نہیں مانتے جو اہل سنت بلکہ تمام امت مسلمہ کا اجماع ہے۔‘‘ ۱… چنانچہ امام غزالیؒ لفظ خاتم النبیین کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’’ان الامۃ فہمت بالاجماع من ہذا للفظ ومن قرائن احوالہ انہ افہم عدم نبی بعدہ ابداً وعدم رسول بعدہ ابداً وانہ لیس فیہ تاویل ولا تخصیص (الاقتضاء فی الاعتقاد مصری ص۱۴۶)‘‘ یعنی امت نے اس لفظ خاتم النبیین اور آنحضرتﷺ کے احوال وقرائن سے اجماعی طور پر یہی سمجھا ہے کہ حضورﷺ نے یہی سمجھایا ہے کہ آپ کے بعد ہمیشہ ہمیشہ نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول۔ اس میں نہ کسی تاویل کی گنجائش ہے اور نہ کسی تخصیص کی۔ ۲… علامہ آلوسی مفتی بغداد نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ: ’’وکونہ ﷺ خاتم النبیین مما نطق بہ الکتاب وصدعت بہ السنۃ واجمعت علیہ الامۃ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصراً (روح المعانی ج۷ ص۶۵)‘‘ یعنی آنحضرتﷺ کا خاتم النبیین ہونا ایسا قطعی مسئلہ ہے کہ جس کو قرآن نے بیان کیا ہے اور سنت نے اس کی وضاحت کی ہے اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے۔ اس کے خلاف نبوت کا دعویٰ کرنے والا کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو قتل کر دیا جائے گا۔ ۳… حضرت سلطان عالمگیر غازیؒ کے حکم سے اس وقت کے جلیل القدر علمائے اہل سنت نے جو فتاویٰ مرتب کیا ہے۔ اس میں تصریح ہے کہ: ’’اذا لم یعرف ان محمداً صلی اﷲ علیہ وسلم آخر الانبیاء فلیس بمسلم ولو قال انا رسول اﷲ اوقال بالفا وسیہ من پیغمبرم یرید بہ من پیغام می برم یکفر‘‘ یعنی جب کوئی شخص حضرت محمد رسول اﷲﷺ کو آخری نبی نہ سمجھتا ہو تو وہ مسلمان نہیں ہے اور اگر کوئی شخص کہے کہ میں اﷲ کا رسول ہوں یا فارسی میں کہے کہ میں پیغمبر ہوں اور اس کی مراد یہ ہو کہ میں اﷲ کا پیغام لاتا ہوں تو وہ کافر ہوگا۔ (فتاویٰ عالمگیر ج۲ ص۲۶۲) ہم نے بطور نمونہ یہ تین حوالے پیش کئے ہیں۔ اب اگر مرزائی اس بات میں دیانتدار ہیں کہ مرزا قادیانی اہل سنت کے اجماعی عقائد کو مانتے تھے اور وہ بھی مانتے ہیں تو اس مسئلہ ختم نبوت اور اس کے مفہوم پر امت کا جو اجماع ہے ان کو مان لینا چاہئے اور اس کی روشنی میں