احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
کے الہام اتارے اور اپنا یقین ظاہر کیا ہے۔ اس کے سوا آپ کوئی وجہ بیان کریں۔ جس سے آپ کے نبی کا معجزہ ظاہر ہو۔ عظیم الشان نہ سہی معمولی معجزہ سہی۔ مگر میرے خیال میں اس قول کی عظمت کی وجہ یہ ہے کہ آپ معلوم کر کے پھڑک جائیںگے۔ یہ واقعہ مرزاقادیانی کی کذابی کا بہت ہی عظیم الشان نشان ہوا کہ نہایت معمولی بات جس کے لئے مرزاقادیانی تمام عمر ترستے رہے۔ مگر اس کا ظہور نہ ہوا اور مرزاقادیانی کے فریب سے بہت مخلوق خدا محفوظ رہی۔ کہئے کیسی باریک بات میں نے نکالی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ مرزاقادیانی کی معشوقہ کو منکوحۂ آسمانی کیوں کہتے ہیں۔ دنیا میں تو کسی وقت نکاح میں نہیں آئی۔ کیا مرزاقادیانی آسمان پر گئے تھے اور اسی ذات نے نکاح پڑھایا تھا۔ جس نے بقول مرزا سرخ روشنائی کا چھینٹا مرزاقادیانی پر ڈالا تھا۔ یہ فرمائیے کہ یہ آسمانی نکاح کس وقت ہوا۔ اس کے دنیاوی نکاح سے پہلے یا بعد اگر پہلے ہوا تھا تو وہ مرزاقادیانی کی بیوی ہوچکی تھیں۔ جس طرح حضرت زینب جناب رسول اﷲﷺ کی بیوی تھیں۔ اب تو ان پر فرض تھا کہ اس کا نکاح ہونے نہ دیتے اور فریاد کر کے اپنی بیوی کو لیتے۔ مگر مرزاقادیانی تو کچھ نہیں کہا اور اپنی بیوی کو دوسرے کے پاس چھوڑ دیا اور مرزاقادیانی دیوث ہوئے اور اگر اس کے نکاح کے بعد یہ آسمانی نکاح ہوا تو اﷲتعالیٰ نے دوسرے کی بیوی سے نکاح پڑھادیا۔ کیا اسے اس کا علم نہ تھا کہ یہ منکوحہ آخر عمر تک اپنے اسی شوہر کے نکاح میں رہے گی اور کسی وقت بیوہ نہ ہوگی۔ اس کا شوہر مرزاقادیانی کی زندگی میں نہ مرے گا۔ اگر علم نہ تھا تو مرزاقادیانی کا خدا عالم الغیب نہیں ہے اور اگر عالم الغیب تھا تو کیوں۔ ایسی حماقت ظاہر کی کہ دوسرے کی بیوی سے نکاح پڑھایا اور اس کا نتیجہ بجز اس کے کہ اس کے نبی کی ذلت اور رسوائی ہو اور کچھ نہ ہوا۔ اس کی تفصیل فیصلہ آسمانی حصہ اوّل میں ملاحظہ کر کے کچھ تو شرمائیے۔ مگر آپ یہ فرمائیںگے کہ شرم وحیا چہ کتی ست کہ پیش مرزائیان بیاید۔ یہ تو آپ کو اختیار ہے۔ مگر میں یہ ضرور کہوںگا کہ ایسے شخص کو آپ کا دل بزرگ تو ہرگز نہ سمجھتا ہوگا اور نبوت رسالت تو بہت بڑی بات ہے۔ مگر اس دروغ بافی اور تبلیغ کذبی میں ترلقمہ ملتا ہے۔ اگر چھوڑ دیں تو کوئی مسلمان تو توجہ نہ کرے گا۔ پھر پیٹ کیسے بھرے گا۔ یہ خیال آپ کا صحیح ہے۔ اس پر ہم بھی صاد کرتے ہیں۔ آپ یہ شعر بھی کبھی پڑھ لیتے ہوںگے۔ اتبویان چین سے گذرتی ہے عاقبت کی خبر خدا جانے ابوالمحاسن محمد ارشد!