احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
رمضان ۱۳۱۱ھ میں سورج اور چاند کو گرہن ۱؎ لگا تو جھٹ سے مرزاقادیانی نے انہیں ضعیف حدیثوں کو صحیح مان کر کتاب (شہادۃ القرآن ص۴۰، خزائن ج۶ ص۳۳۷) پر ایک افتراء امام بخاریؒ پر اس طرح تصنیف کیا۔ لکھتے ہیں کہ: ’’اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہئے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں۔ مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔ خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ اس کے لئے آسمان سے آواز آئے گی کہ ’’ہذا خلیفۃ اﷲ المہدی‘‘ اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے۔ جو ’’اصح الکتاب بعد کتاب اﷲ‘‘ ہے۔‘‘ یہ حدیث صحیح بخاری شریف میں اگر کوئی مرزائی دکھائے تو وہ مرزائی پچاس روپیہ انعام پائے ورنہ جھوٹے کی نسبت ہم وہی کہیںگے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں اس پر اعتبار نہیں ہوتا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱) ۲… دجال کا دوسرا دجل دیکھئے۔ کتاب (تحفۂ گولڑویہ ص۷۲، خزائن ج۱۷ ص۲۱۱) پر ایک حدیث اس طرح لکھتے ہیں کہ: ’’نسائی نے ابوہریرہؓ سے دجال کی صفت میں آنحضرتﷺ سے یہ حدیث لکھی ہے۔ ’’یخرج فی اٰخرالزمان دجال یختلون الدنیا بالدین یلبسون لناس جلود الضان السنتہم احلی من العسل وقلوبہم قلوب الذیاب یقول اﷲ عن دجل ابی یفترون ام علی یخبرون‘‘ اور اگر کوئی مرزائی ہمت کر کے یہ حدیث نسائی (یا کسی اور صحیح حدیث کی کتاب میں) دکھائے تو چالیس روپیہ انعام پائے۔‘‘ ورنہ جھوٹے کی نسبت مرزاقادیانی نے صاف لکھا ہے کہ: ’’ایمانداروں کی یہی علامت ہے کہ جب ایک موقعہ پر ایسا خیال جھوٹا ثابت ہوگیا تو پھر چاہئے کہ عمر بھر اس کا نام نہ لیں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۳۴، خزائن ج۲۲ ص۴۶۷) ۱؎ حالانکہ ایسے گرہن پہلے بھی کئی دفعہ سورج اور چاند کو لگ چکے ہیں اور تعجب ہے کہ ایک جھوٹی روایت کو یہ کہتے ہوئے خدا کا خوف نہیں اور رسول سے شرم بھی نہیں آتی کہ یہ حدیث ہے۔ دوستو! آنحضرتﷺ فرماتے ہیں۔ ’’من کذب علیّ متعمداً فلیتبوأ مقعدہ فی النار‘‘ جو کوئی مجھ پر جھوٹ لگائے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے۔ (حدیث)