احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
روزانہ اخبار واشتہار ورسائل نکلتے ہیں۔ مگر ایک صفحہ جواب کا نہیں لکھ سکتے۔ قلم، دوات، کاغذ، پریس، مشینیں سب ہی کچھ موجود ہیں۔ مگر کوئی مرزائی ہے جو ہمارے مقابلہ میں قلم اٹھائے۔ مرزائیت کی پوری خانہ ویرانی کے بعد ہندوستان کے تمام قادیانیوں کو چیلنج دیا۔ اس کو کس نے نہیں دیکھا۔ مگر کوئی مرزائی بولا یا بول سکتا ہے؟ پھر کس منہ سے مرزائیت کی تبلیغ کرتے ہو اور کس حق کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہو۔ تم تو ابھی ابھی اسلام سے خارج ہوئے ہو۔ انصاف سے بات کرو۔ افسوس کا مقام ہے کہ یہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم سے اصولی بحث کرلو۔ جب اصولی بحث شروع ہوتی ہے تو جان چھڑا جاتے ہیں۔ کیا یہی اعلیٰ اصولی بحث ہے کہ جھوٹ بولنے والا بھی خدا کا مخاطب یا ملہم ہوسکتا ہے؟ دوستو! دیکھنا تو یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے دنیا میں آکر کس قدر جھوٹ بولے، اگر مرزاقادیانی کا ایک جھوٹ بھی ثابت ہو جائے تو بس قصہ ہی ختم۔ حیرت کا مقام ہے کہ یہ مرزائی کس طرح آستینیں چڑھا چڑھا کر مخالفین اسلام سے بحثیں کرنے جاتے ہیں اور وہاں اسلام کے دلائل سے فتح پاکر احمدیت کی فتح مشہور کرتے ہیں۔ مگر جب احمدیت پر حملہ ہوتا ہے تو ایسے خاموش ہوجاتے ہیں جیسے ’’کالمغتشی علیہ من الموت‘‘ مرزائیو! ہم تمہارے بھلے کی بات کہتے ہیں کہ جھوٹوں کا ساتھ چھوڑ دو اور بحکم خدا ’’کونوا مع الصادقین‘‘ سچوں کا ساتھ دو۔ قادیانی دوستو! آپ لوگوں پر بہت ہی افسوس ہے کہ تم لوگ مرزاقادیانی کے تخت وتاج کے وارث بن کر ’’مرزاقادیانی‘‘ کے جھوٹ کو خاموشی سے سن رہے ہو اور ادھر ادھر کی فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہو اور جھوٹی گپیں مشہور کر کے ناواقفوں کی آنکھوں میں خاک ڈالتے ہو۔ مگر مرزاآنجہانی سے کذبات کا الزام دور کرنے کی طرف نہیں آتے۔ مجھے امید قوی ہے کہ اگر کوئی مرزائی خالی الذہن ہوکر خلوص نیت سے اس کتاب کا مطالعہ کرے گا تو وہ ضرور کذاب قادیانی سے قطع تعلق کر کے دوبارہ سرکار مدینہﷺ کے جھنڈے تلے پناہ لے گا۔