احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
معیار قرار دیا تھا۔ ان سب سے پہلے خود ہی بمرض ہیضہ لاہور میں مرکر اپنی ناکامی ونامرادی اور اپنا کذاب ہونا ایسا ثابت کرگئے کہ نہ موافقوں کو دم مارنے کی جگہ باقی رہی نہ مخالفوں کو زیادہ گفت وشنید کی ضرورت۔ جھوٹ بولے تو ایسے ایسے ڈبل بولے کہ زمین وآسمان تو ان کا تحمل کر نہیں سکتے۔ ہاں مرزاقادیانی کی قبر ہی میں ان کو تلاش کیا جائے تو ضرور ملیں۔ حضرات! ہماری تحقیق تو یہ ہے کہ ولایت میں کوئی مشین کتنی ہی تیز چلنے والی ہو اتنا کپڑا نہیں بن سکتی۔ جتنا قادیانی مشین میں دروغ بنایا جاتا ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ منشی غلام احمد قادیانی آنجہانی عام انسانوں پر تو جھوٹ اور افتراء کرتے ہی تھے۔ لیکن خدا اور رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی جھوٹ اور افتراء لگانے سے ان کو پرہیز نہ تھا اور اس کی مثالیں ہم نے کئی دفعہ بذریعہ اخبار شائع کی ہیں۔ جن کا جواب قادیانی امت نے بجز خاموشی کے اور کچھ نہ دیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب قادیانی کابل تشریف لے گئے ہیں۔ کسی مرزائی کی تجہیز وتکفین کرنے۔ مرزائیوں کی غفلت سے بیچاری مرزائیت کا تو بڑی طرح تڑپ تڑپ کر خاتمہ ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جنازہ کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ مرزاقادیانی کا جنازہ تو لاہور سے دجال کے گدھے پر سوار کر کے قادیان پہنچایا گیا تھا۔ دیکھئے بیچاری مرزائیت قادیان سے لاہور آتی ہے۔ یا لاہور سے قادیان جاتی ہے یا لاوارثی میں عیسائیت کے سپرد ہوتی ہے ؎ کل تیرے عاشق کی جاناں کیا ہی رسوائی ہوئی ٹھوکریں کھاتی پھرے تھی نعش کفنائی ہوئی سلطان القلم کے مریدو! اگر آپ لوگ منشی جی کو سچا ثابت نہیں کرسکتے۔ تو پھر یہ کہہ دو کہ ہم مرزاقادیانی کے کس قدر جھوٹ ثابت کردیںتو آپ بھی ان کو جھوٹا کہیںگے۔ مناظروں کا دعویٰ، مباہلوں کا شور تھا۔ مگر سب ہی سیٹی پٹاخے بھول گئے اور کوئی جواب نہیں بنتا ؎ کیوں نہیں بولتے صبح کے طیور کیا شفق نے کھلا دیا سیندور مرزائیو! تمہاری غیرت وشرم وحیا کہاں چلی گئی یا اسلام کے ساتھ اخلاق سے بھی خارج ہو گئے ؎ گم ہوئی جاتی رہی کھوئی گئی آئی ہوئی بے وفا تیری وفا میری شکیبائی ہوئی