ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
بیچاری کی جان بچی اور وہ ہار محفوظ رہا ورنہ گھر میں سے اس کے نکال دینے کیلئے بھی سر تھے ۔ یہ شان اہل علم کی ہونا چاہیے اس پر خواہ کوئی اعتراض کرے خواہ دیوانہ سمجھے ، یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آج کل ترقی کا زمانہ ہے ایسے لوگوں کو جو کہ دنیا کو ترک کرتے ہیں تو توکل یا زہد کرتے ہیں بیوقوف اور دیوانہ سمجھتے ہیں ۔ بس اس کا یہ جواب دینا چاہیے : اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد مرعسس رادید و درخانہ نشد شیخ کامل اور قلب کی صفائی ( ملفوظ 104 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ شیخ کی مثال بالکل طبیب کی سی ہے اگر طبیب اناڑی ہے تو پھر جان کی خیر نہیں ۔ جیسا کہ مقولہ مشہور ہے کہ ( نیم حکیم خطرہ جان نیم ملا خطرہ ایمان ) بعض اناڑی شیخ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتے ہیں ۔ اسی سبب سے لوگوں کی تربیت اور اصلاح نہیں ہوتی جیسے ایک طبیب کا قصہ ہے کہ کسی مریض کا علاج کیلئے بلائے گئے مریض کی چارپائی کے نیچے نارنگی کے چھلکے پڑے ہوئے تھے ، حکیم صاحب نے نبض دیکھ کر فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نہ نارنگی کھائی ہے اس مریض نے اقرار کیا کہ بیشک کھائی ہے ۔ حکیم صاحب کے صاحبزادے بھی ساتھ رہتے تھے ، مکان پر آ کر حکیم صاحب سے دریافت کیا کہ آپ نے یہ کیسے معلوم کر لیا تھا کہ اس مریض نے نارنگی کھائی ہے ۔ حکیم صاحب نے فرمایا کہ بیٹا اس کی چارپائی کے نیچے نارنگی کے چھلکے پڑے ہوئے تھے بس اب کیا تھا صاحبزادے کے ہاتھ ایک قاعدہ کلیہ آ گیا ۔ گو وہ ایک واقعہ جزئیہ تھا اب حکیم صاحب کے بعد صاحبزادہ کا زمانہ آیا ۔ ایک مریض کو دیکھنے کے لیے بلائے گئے ، اتفاق سے اس مریض کی چارپائی کے نیچے نمدہ پڑا ہوا تھا ، آپ نبض دیکھ کر فرماتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے نمدہ کھایا ہے ، لوگوں نے اس کو وہاں سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ تمہاری دم میں نمدہ یہ تو ایک حکایت ہے جو میں نے توضیح کے لیے اس وقت بیان کی مگر آج کل حالت مشائخ کی یہ ہی ہو رہی ہے کہ سب کو ایک ہی وظیفہ ایک ہی ورد یہ سب باتیں فن سے واقف نہ ہونے کی بدولت ہو رہی ہیں ۔ تصوف کو ان لوگوں نے بدنام کر دیا ، تصوف کی جو حقیقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں