ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
بات کا اقرار تو کر لیا ، کوئی تاویل یا گڑبڑ نہیں کی ۔ ( جن حضرات کی یہ رائے ہے کہ حضرت والا کے مزاج میں درشتی یا سختی ہے وہ اس کو ملاحظہ فرما کر اپنی رائے کے صائب ہونے نہ ہونے پر غور فرمائیں کہ کیا اس کو سختی کہتے ہیں ( احقر جامع ) اسی سلسلہ میں فرمایا کہ نہ معلوم کس طرح تم لوگ دل میں حساب لگا لیتے ہو ایک صاف بات اور کھلی ہوئی بات کو الجھا دیتے ہو ، چاہیے تو یہ کہ اگر الجھی ہوئی بھی بات ہو تو اس کو بھی صاف کریں ، آج کل اس کا عکس کرتے ہیں اس قدر خودرائی کی ترقی ہوئی ہے کہ ہر شخص کو اس میں ابتلا ہے ، آتے ہیں معتقد ہو کر اور کرتے ہیں مخالفت ایک مولوی صاحب کے جواب میں فرمایا کہ نہیں صاحب یہ وجہ نہیں بلکہ طبیعت میں اطاعت نہیں خودرائی ہے ، اپنی رائے کو ترجیح دینا چاہتے ہیں ، دوسرے کو اس کے تابع بنانا چاہتے ہیں اس راہ میں اپنی رائے سے کوئی کام ہی نہیں کرنا چاہیے یہ اس راہ میں کم بخت سم قاتل ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اصل مضر چیز اس طریق میں خودرائی ہے مگر سب باتیں فکر سے ہوتی ہیں سارا مرض بے فکری کا ہے سوچتے ہی نہیں جو جی میں آیا کر لیا ۔ دین کے نادان دوست ( ملفوظ 187 ) ( ملقب بہ شکوی المتحسبین ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ فہم کا آج کل اس قدر قحط ہو گیا ہے شاید ہی الا ماشاء اللہ کوئی اس نعمت سے بہرہ ور ہو ورنہ بڑے بڑے لکھے پڑھے اور تعلیم یافتہ اس سے کورے ہیں جتنی حرکات ہیں سب بد فہمی کی یہ لوگ دین کو تو کیا سمجھتے ، دنیا کی بھی سمجھ نہیں ویسے خطابات بڑے بڑے کوئی عقلاء کہتے ہیں کوئی ریفارمر کوئی لیڈر لفافہ پر پتہ تو بڑے جلی قلم سے لکھا ہوا ہے مگر جب کھول کر دیکھو تو معقول مضمون ندارد ان کی بیہودگیوں اور کم عقلی کی باتوں نے مسلمانوں کو تباہ اور برباد کیا ، ملک میں ہر روز ایک ڈھونگ بنا کر کھڑے ہو جاتے ہیں مگر دین کے پکے دشمن ہیں دوستی کے پردہ میں دشمنی کر رہے ہیں ۔ احکام اسلام کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں ، کوئی کہتا ہے کہ حرمت سود کا مسئلہ مانع ترقی ہے کوئی کہتا ہے کہ پردہ مسلمانوں کی ترقی کو مانع ہے کوئی کہتا ہے کہ صرف توحید خداوندی کی ضرورت ہے اعتقاد و رسالت مانع ترقی ہے ۔ غرض یہ کہ ہاتھ دھو کر اسلام کے پیچھے پڑے