ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
آج کل تہذیب نہیں تعذیب ہے ( ملفوظ 196 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل اکثر اہل تکلف میں تہذیب تو کہاں البتہ تعذیب ہے میرے نزدیک تو تہذیب اور ادب یہ ہے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے تعظیم کا نام ادب نہیں ۔ ایک عالم کا حضرت کو گھورنا ( ملفوظ 197) فرمایا کہ ایک شخص جن کا نام نہیں بتلایا کئی روز ہوئے بعد نماز مغرب میرے پیچھے دیوار سے لگے کھڑے ہیں مجھ کو دیکھ کر سخت گرانی ہوئی ، پڑھنا مشکل ہو گیا ، وہ خود عالم بھی شیخ بھی بڑے بزرگوں کی صحبت میں رہے ہوئے بھی ، اتفاق سے نیاز آ گئے ، میں نے پوچھا یہ کون کھڑا ہے تب معلوم ہوا کہ فلاں صاحب ہیں ۔ میں نے ادب سے کہا کہ دوسروں کی تکلیف کا تو احساس ہونا چاہیے مجھے آپ کی اس بات سے تکلیف ہوئی ہر وقت کسی پر ہجوم کرنا یہ ادب کے خلاف ہے ۔ میں کہنے کو کہہ تو گیا مگر ہوئی بہت ہی ندامت عالم فاضل شیخ وقت ان کی یہ حرکت ۔ قصائی یا بیل ( ملفوظ 198 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ لوگ مجھ کو یوں کہتے ہوں گے کہ اچھا قصائی سے پالا پڑا اور میں کہتا ہوں کہ اچھا بیلوں سے پالا پڑا کوئی کھر مارتا ہے کوئی سینگ مارتا ہے اگر ڈنڈا نہ چلاؤں تو اور کیا کروں ۔ خودرائی ، رائی کے برابر بھی مضر ہے ( ملفوظ 199 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ خودرائی اگر رائی کے برابر بھی ہو اس کو بھی چھوڑ دینا چاہیے ، یہ بڑی ہی مضر چیز ہے ۔ اگر شیخ عبادت مستحبہ سے بھی منع کرے اس کو چھوڑ دینا چاہیے اس کے نافع ہونے کے بھی شرائط ہیں اس کو مبصر سمجھتا ہے کہ اس کے لیے نافع ہے یا نہیں مثلا مستحب میں مشغول ہونے سے کوئی واجب فوت ہوتا ہو جس کو بعض اوقات شیخ جانتا ہے طالب نہیں جانتا ۔ ہندوستان میں بزرگوں کا وجود غنیمت ہے ( ملفوظ 200 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ہندوستان کا حال