ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
فرمایا کہ یہ سب کچھ خرابی نا اہلوں کے علم پڑھ لینے کی بدولت ہو رہی ہے ۔ ان میں اکثر طماع ( لالچی ) ہیں اور بعض جگہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ امراء نے اپنے بچوں کو علم دین پڑھانا چھوڑ دیا ، غرباء علم دین پڑھتے ہیں تو وہ کہاں سے بلند حوصلہ لائیں ، سو یہ انتخاب کی غلطی ہے جس کی ذمہ دار قوم ہے اہل علم کی شان تو یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنی فاقہ مستی پر نازاں ہوں اور خوش رہیں اور کسی اہل دنیا کی طرف ہاتھ نہ پھیلائیں بلکہ منہ بھی نہ لگائیں علماء کو تو اس کا مصداق بننا چاہیے ۔ ایدل آں بہ کہ خراب ازمے گلگوں باشی بے زرد گنج بصد حشمت قاروں باشی یہ تو مال کے ساتھ ان کا معاملہ ہو اور جاہ کے ساتھ یہ ہو کہ در رہ منزل لیلی کہ خطر ہاست بجاں شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی غرض ان اہل علم کو تو دنیا اور دنیا والوں پر نظر بھی نہ کرنا چاہیے بلکہ یہ کہہ دینا چاہیے : مااگر قلاش دگر دیوانہ ایم مست آں ساقی و آں پیمانہ ایم حضرت شاہ عبدالقدوس صاحب قدس سرہ گنگوہی کی یہ حالت تھی کہ کثرت سے آپ کے گھر فاقے رہتے تھے ۔ حضرت میں زہد کی شان کا بہت ہی غلبہ تھا حالانکہ ابراہیم لودھی بادشاہ کی بہن آپ کی مرید تھیں مگر ان سے کوئی ہدیہ وغیرہ قبول نہیں کیا جاتا تھا جس کا سبب ان کا کوئی نقص نہ تھا ، ان کی تو یہ حالت تھی کہ حضرت یہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر بزرگوں کے طریقہ کے خلاف نہ ہوتا تو میں اس عورت کو خلافت دیتا ۔ غرض آپ کے یہاں فاقوں کی یہاں تک نوبت پہنچ جاتی کہ گھر میں سے گھبرا جاتیں تو فرمایا کرتے کہ گھبراؤ نہیں ہماری راحت کا سامان ہو رہا ہے ، وہ پوچھتیں کہاں ، فرماتے جنت میں سامان ہو رہا ہے ۔ وہ بھی ایسی تھیں کہ اس پر قانع ہو جاتیں گھر میں ان کے پاس ایک چاندی کا ہار تھا ۔ جب شیخ گھر میں آتے تو فرماتے کہ دنیا کی بو آتی ہے ، اتفاق سے ایک بزرگ حضرت کے گھر مہمان ہو کر تشریف لائے ، ان سے حضرت کے گھر میں سے شکایت کی کہ رکن الدین کی شادی کی ضرورت سے میرے پاس چاندی کا ایک ہار ہے مگر اس کے متعلق بھی جب گھر میں تشریف لاتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ دنیا کی بو آتی ہے تب ان بزرگ نے شیخ سے فرمایا کہ میاں اس بیچاری کے کیوں پیچھے پڑے ، تم کو سب کی دنیا سے کیا بحث ، پھر کبھی کچھ نہیں فرمایا اور ان