ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
فرمایا کی جاؤ ہٹو پیچھے بیٹھو ۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ اگر لکھ کر دے دیا کریں ، یہ اچھا ہے زبانی کہنے سے فرمایا کہ بات تو اچھی ہے مگر جب سلیقہ نہیں لکھنے میں بھی گڑبڑ ہی کریں گے ۔ عین مواخذہ کے وقت اپنے کو بدتر سمجھنا ( ملفوظ 236 ) ایک صاحب نے حضرت والا کی خدمت میں پرچہ پیش کیا ۔ ان صاحب کی صورت دیکھ کر فرمایا کہ یہ تو سب بات ہو چکی تھی ۔ اب نئی بات کون سی پیش آئی جس کے لیے پرچہ کی ضرورت ہوئی ، اٹھاؤ پرچہ کو زبان سے کہو جو کہنا ہے کوئی راز کی بات نہیں اس پر وہ صاحب خاموش رہے ، فرمایا کہ پھر بیہودگی شروع کی ، میں تو اپنے کاموں کو چھوڑ کر تمہاری طرف متوجہ ہوں اور تم خاموش ہو ، کیا سب نے مل کر قسم کھا لی ہے کہ خوب دق کریں گے ، سیدھی بات کا بھی جواب نہیں اور کس طرح پوچھوں ، صاف بات کہہ رہا ہوں اس پر وہ صاحب نہایت دبی ہوئی آواز سے بولے جس کو کوئی بھی نہ سن سکا نہ حضرت والا ہی نہ اہل مجلس ہی حضرت والا نے اہل مجلس کی طرف مخاطب ہو کر دریافت فرمایا کہ کسی صاحب نے کچھ سنا کہ انہوں نے کیا کہا سب نے عرض کیا کہ کوئی کچھ نہیں سن سکا ، حضرت والا نے ان صاحب سے فرمایا کہ اور چپکے چپکے بولو میں سن نہ لوں ، بڑا گناہ ہے زور سے بولنا ، ارے بھائی تنگ نہ کرو ، دق نہ کرو ، پریشان نہ کرو ، ابھی دیکھ رہے ہو کہ آہستہ بات کرنے کو منع کیا ہے ( کیونکہ ایک صاحب کو منع کر چکے تھے ) اس سے دوسرے کو تکلیف ہوتی ہے مگر تم نے بھی وہی صورت اختیار کی یہ نزاکت کہاں سے نکالی ، سب اودھ کے نواب زادے ہی بن گئے یہ اچھا ادب نکالا جس سے دوسرے کو تکلیف ہو جائے ، چلو اٹھو جسے بات کرنا ہی نہ آئے اس کا کام کیسے ہو ، آتے ہیں ، اپنی غرض لے کر اور دوسروں کو پریشان کرتے ہیں ، آخر کہاں تک دوسرے کو تغیر نہ ہو ، پھر مجھ کو کہتے ہیں بد اخلاق ہے اپنے حسن اخلاق کو بھی دیکھتے ہو آ کر کیا نور برساتے ہو ، خبردار جو کبھی یہاں آئے یا خط بھیجا یہ فرما کر حضرت والا نے اہل مجلس کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ان آخری الفاظ کو مصلحتا کہا گیا اس سے دماغ سیدھا ہو جائے گا ، بے چاروں کو محبت تو ہے مگر عقل نہیں میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میں کسی کو کہہ سن کر خوش نہیں ہوتا ، ہاں پچھتاتا بھی نہیں اور عین مواخذہ کے وقت بھی اپنے کو مخاطب معتوب سے بدتر اور ذلیل سمجھتا ہوں اس وقت بحمد اللہ پوری طرح اس کا استحضار ہوتا ہے کہ ممکن