ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
حضرت حاجی صاحب اور علم کی رعایت ( ملفوظ 601 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب فن طریقت کے امام تھے حضرت کی بصیرت کا کیا ٹھکانا تھا مجھ کو بیعت کرنے کے وقت یہ شرط لگائی تھی کہ پڑھنے پڑھانے کے شغل کو ترک نہ کرنا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دینی ضرورت کا کس درجہ ادراک تھا اسی لئے علماء کا بے حد احترام فرماتے تھے ایک مرتبہ مولوی رحمت اللہ صاحب نے حضرت پر کچھ اعتراضات کئے حضرت کو بھی طبعا ناگواری ہوئی اور جواب دے کر یہ بھی فرمایا کہ اگر میں اپنے بچوں کو بلا لوں گا تو ناطقہ بند کر دیں گے اتفاق سے اس زمانہ میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحب اور حضرت مولانا گنگوہی صبح کو تشریف لے گئے اور یہ واقعہ سن کر ان حضرات کو بھی ناگوار ہوا اور باہم یہ مشورہ کیا کہ ہم مولوی صاحب سے جا کر پوچھیں گے حضرت حاجی صاحب کو خبر ہوئی تو فرمایا نہ بھائی تم کچھ نہ بولنا میں ان کا احترام کرتا ہوں ہاں جا کر مل آؤ یہ حضرات گئے اور مل کر چلے آئے ۔ حضرت نانوتوی کو حضرت حاجی صاحب سے عشق ( ملفوظ 602 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نے فرمایا کہ بھائی پڑھنا پڑھانا تو اور چیز ہے مگر بیعت تو ہوں گے حضرت امداد ہی سے حضرت مولانا کو حضرت کے ساتھ عشق کا درجہ تھا ۔ " جو ہم نے دینا تھا دے چکے " حضرت حاجی صاحب کا حضرت گنگوہی کو فرمان ( ملفوظ 603 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مولانا شیخ محمد صاحب حضرت مولانا گنگوہی کی نسبت چاہتے تھے کہ مجھ سے بیعت ہوں مگر حضرت مولانا نے حاجی صاحب کو ترجیح دی اور حاضر ہو کر چالیس روز رہے اور چاہیس روز تک ایک ہی جوڑا بدن پر رہا جب رخصت ہو کر چلے تو حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ جو کچھ دینا تھا میں دے چکا مولانا نے دل میں کہا کہ کیا دیا