ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
حضرت کا والد کے انتقال کے بعد ورثاء کو حق پہنچانا ( ملفوظ 243 ) ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کے والد صاحب مرحوم کے انتقال کو زمانہ ہوا ، اس قدر زمانہ کے بعد اہل حقوق کو حق پہنچانا بڑا مشکل ہے ۔ حضرت کو اس میں بڑی کلفت ہوئی ہو گی ، فرمایا کہ اہل حقوق کے حق پہنچانے کی مسرت اور خوشی اس قدر قلب پر تھی کہ کچھ گرانی نہیں ہوئی ، وقت تو صرف ہوا ورثاء کی تحقیق میں اور اس میں کہ کون کہاں ہے اور کس کا کس قدر ہے باقی پریشانی یا کلفت کچھ نہیں ہوئی ، غیب سے حق تعالی نے ایسے وسائل اور ذرائع پیدا فرما دیئے ، اپنے فضل سے بآسانی سب کا پتہ معلوم ہو گیا ، کوئی مدینہ طیبہ میں کوئی مکہ معظمہ میں ، کوئی ممبئی میں کوئی کلکتہ میں کوئی لاہور میں کوئی دہلی میں کوئی بھوپال میں غرض کہ چہار طرف پھیلے ہوئے ہیں اور اب بحمد اللہ تعالی قریب قریب سب کا پتہ معلوم ہو گیا اور جو باقی ہیں ان کا بھی عنقریب انشاء اللہ تعالی پتہ معلوم ہو جائے گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ حق تعالی ہی کا فضل شامل حال تھا جو اس قدر بڑا کام اس سہولت سے انجام پا گیا کہ میں پھولوں سے بھی زیادہ ہلکا رہا اور کام ہو گیا ، جب کوئی نیک کام کا ارادہ کرتا ہے حق تعالی مدد فرماتے ہی ہیں اور اس کام کی تکمیل کے لیے اتنی زندگی کی تمنا اور ہو گئی کہ میرے سامنے سب اہل حقوق کے حقوق ادا ہو جائیں ، بعد مر جانے کے پھر کوئی ادا کرے یا نہ کرے اور اگر کسی کو فی الحال ادا کی قدرت نہ ہو تو نیت تو رکھے ادا کی ، شریعت میں تنگی نہیں اس لیے نادار کی نیت بھی بجائے ادا کے ہے مگر اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ صرف نیت کر لینا کافی ہے صرف نیت سے کام نہ چلے گا ، ادا کرنا بھی شروع کر دے ، پورا نہیں تھوڑا تھوڑا سہی مثلا کسی کے ذمہ ہزار روپیہ ہے مگر پاس ہیں صرف پانچ روپے ، ان ہی پانچ کو ادا کر دے ۔ غرض صرف نیت معتبر نہیں جس وقت جس قدر ہو سکے ادا کرتا رہے اور اس کے ساتھ ہی نیت رکھے سب کی ادا کی اس طرح کی نیت معتبر ہو گی مثلا سب مسلمانوں کی نیت ہے حج کی مگر جس نے اہتمام شروع کر دیا اسی کی نیت معتبر ہو گی اور جس نیت کا معتبر ہونا میں نے بیان کیا اس میں بڑی چیز یہ ہے کہ عمل مامور بہ کا برابر ثواب ملتا رہتا ہے ۔ گویا گھر بیٹھے رحمت کا مستحق بن رہا ہے ۔