ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
فرضی سوال کی ممانعت ( ملفوظ 334 ) ایک صاحب کے غیر واقع سوال کے جواب میں فرمایا کہ فقہاء کو تو ضرورت تھی کہ فرض کر کے مسائل فرماتے تھے کہ شاید وقوع ہو جائے مگر سائل کو کون ضرور ہے کہ وہ فرض کر کے مسائل کی تحقیق کرے اس کو تو واقعی ضرورت کا سوال کرنا چاہیے فضولیات سے بچنا چاہیے ۔ بزرگان دین نے فضولیات سے بچنے کی قولا بھی بہت تاکید فرمائی ہے اور فعلا بھی حتی الامکان فضولیات سے بہت بچاتے تھے ۔ معاصی کا زیادہ صدور نفس کی وجہ سے ہوتا ہے ( ملفوظ 335 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ شیطان تو کم بختی مارا بدنام ہی ہو گیا ورنہ ہم جیسوں کے بہکانے کے لیے تو نفس ہی بڑی چیز ہے شیطان کی بھی ضرورت نہیں ، شطونگڑے ہی یعنی ذریت شیطان کافی ہیں باقی اگر ان سب کے شرور سے بچنا چاہو تو پہلے یہ معلوم کر لینے کی ضرورت ہو گی کہ دشمن مقابلہ پر کون ہے ؟ یہ معلوم ہو جانے کے بعد مقابلہ آسانی سے ہو سکتا ہے یعنی پہلے یہ معلوم کر لو اس خاص گناہ کی طرف شیطان رغبت دلا رہا ہے یا نفس سو اس کا معیار یہ ہے کہ جس وقت قلب میں معصیت کا وسوسہ پیدا ہو تو یہ دیکھو کہ باوجود بار بار کے دفع کرنے کے بعد اگر پھر وہی وسوسہ ہوتا ہے تو یہ نفس کی طرف سے ہے اس لیے کہ نفس کو گناہ سے محض حظ مقصود ہے اور خاص وقت میں حظ خاص ہی گناہ میں ہے اور اگر دفع کرنے کے بعد قلب سے وہ وسوسہ نکل جائے دوسرے گناہ کا وسوسہ پیدا ہو تو سمجھو کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے اس لیے کہ شیطان کو کوئی خاص حظ مقصود نہیں بلکہ عداوت کی وجہ سے مطلق گناہ میں مبتلا کرنا مقصود ہے اس لیے یہ شخص اگر ایک سے ہٹے گا تو وہ اس کو دوسرے میں مبتلا کرنے کی کوشش کرے گا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ زیادہ تر صدور معاصی کا نفس ہی کی طرف سے ہے مگر لوگ دھوکہ میں ہیں کہ ایسے خطرات کے وقت کثرت سے لاحول پڑھتے ہیں مگر پھر بھی وسوسہ میں کمزوری پیدا نہیں ہوتی کیونکہ لاحول نفس کا علاج نہیں سو کتنی بڑی غلطی میں بوجہ عدم علم کے ابتلاء ہو رہا ہے نفس کا علاج کرو جو گناہ کرانے میں شیطان کی بھی اصل ہے ۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ اوروں کو تو