ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
روٹی لگا لگا کر کھائی ، مزہ کیا آتا صبح کو لڑکوں سے کہا کہ سسرو تم کہتے تھے بڑا مزہ ہے ہم نے تو روٹی لگا کر کھائی تھی ہم کو تو کچھ بھی مزہ نہیں آیا ، لڑکوں نے کہا کہ حافظ جی مارا کرتے ہیں ، آئی شب تو خوب بیچاری کو زدوکوب کیا تمام محلہ میں غل مچ گیا ، اہل محلہ نے حافظ جی کو برا بھلا کہا صبح کو پھر آئے کہنے لگے سسروں نے دق کر دیا ، کہتے ہیں کہ بڑا مزہ ہے کیا مزہ ہے ہم نے تو مار کر بھی دیکھ لیا ، کچھ بھی مزہ نہ آیا بلکہ خود ہی پٹنے سے بچ گئے ۔ تب لڑکوں نے مارنے کی حقیقت بتلائی کہ مارنے کے یہ معنی ہیں اور یہ مطلب ہے اب جو شب آئی اور لڑکوں کی تعلیم کے موافق عمل کیا تب حافظ جی کو حقیقت منکشف ہوئی کہ واقعی مزہ ہے صبح کو جو آئے تو مونچھ کا ایک ایک بال کھلا ہوا تھا اور خوشی میں بھرے ہوئے تھے تو حضرت کر کے دیکھنے سے حقیقت معلوم ہوتی ہے ایک اندھے حافظ جی کی دوسری حکایت ہے کہ ایک لڑکے نے کہا کہ حافظ جی تمہاری دعوت ہے پوچھا کیا کھلائے گا کہا کہ کھیر ، حافظ جی نے دریافت کیا کھیر کیسی ہوتی ہے کہا کہ سفید سفید ، دریافت کیا کہ سفید سفید کیسا ہوتا ہے کہا جیسا بگلہ دریافت کیا کہ بگلہ کیسا ہوتا ہے لڑکے نے اپنا ہاتھ حافظ جی کو کہنی سے پکڑ کر اور ہاتھ کے پہنچے کو جھکا کر کہا کہ ایسا ہوتا ہے ۔ حافظ جی نے جو ہاتھ پھیر کر دیکھا تو کہنے لگے کہ نہ بھائی یہ تو بڑی ٹیڑھی کھیر ہے یہ حلق سے نیچے کس طرح اترے گی ۔ اب حافظ جی کو سمجھانے کی ایک ہی صورت تھی کہ کھیر کا طباق بھر کر سامنے لا رکھتا کہ یہ ہے کھیر کھا کر دیکھ لو ۔ غرضیکہ جو چیز کر کے دیکھنے کی ہے وہ بیان میں کیسے آ سکتی ہے جب کھیر کی جو کہ حسی چیز ہے حقیقت محض بتلانے سے سمجھ میں نہ آئی تو دین جو کہ ایک معنوی چیز ہے کس طرح سمجھ میں آ سکتا ہے اس کو بھی کر کے دیکھو ۔ دین اور دنیا کا فرق ( ملفوظ 490 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا دین کی باتوں میں تو کہا جاتا ہے کہ جی نہیں لگتا ، مزہ نہیں آتا ، احکام گورنمنٹ میں بھی جو کہ نفس کے خلاف ہوں کبھی کہا ہے کہ جی نہیں لگتا ، مزہ نہیں آتا ، مثلا گورنمنٹ حکم دے کہ مال گزاری داخل کرو ، یا ٹیکس داخل کرو ، اس وقت یہ کہہ کر الگ ہو جائیں کہ ہم داخل نہیں کرتے ہمیں مزہ نہیں آتا یہ جی نہیں لگتا ، ایسا کر کے دیکھیں جیل خانہ میں پہنچ جائیں ، جیل خانہ میں جا کر علم آ جاتا ہے ۔ اے صاحبو ! خدا کے