ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
ہے کہ خدا کے نزدیک یہ مقبول ہو اور اپنی مقبولیت کا دعوی نہیں ہو سکتا پھر بھی جو کچھ کہتا سنتا ہوں ان کی ہی مصلحت سے کہتا ہوں ، میری کوئی مصلحت نہیں ہوتی ، ہاں میری بھی ایک مصلحت ہوتی ہے وہ یہ کہ اگر یہ سنور گئے اور ان میں دین پیدا ہو گیا تو شاید یہی میری نجات کے سبب بن جائیں ۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر پیر مرحوم ہو گا مرید کو جنت میں لے جائے گا اور اگر مرید مرحوم ہے تو پیر کو جنت میں لے جائے گا ۔ حضرت مجھ کو اپنی حالت اچھی طرح معلوم ہے کہ میں کیسا ہوں شاید دوستوں ہی کی بدولت نجات ہو جائے ، ان کی ہی خدمت حق تعالی قبول فرما لیں ، یہی بڑا فضل خداوندی ہے جی چاہتا ہے کہ جتنے تعلق رکھنے والے ہیں سب میں دین کا فہم اور سلیقہ پیدا ہو جائے جس میں اس کی کمی دیکھتا ہوں ، برداشت نہیں ہوتی فورا تغیر ہو جاتا ہے اور بیچارے محبت کی وجہ سے سب برداشت کرتے ہیں ۔ اہل محبت ہی کا یہاں پر گزر ہے ورنہ بناؤٹی تو ایک منٹ بھی یہاں پر نہیں ٹھر سکتا نہ تو وہی ٹھر سکتا ہے نہ میں ہی ٹھرنے دیتا ہوں ، اہل فہم اور اہل محبت اگر دو چار بھی ہوں وہی کافی ہیں کوئی نام کرنا یا فوج جمع کرنا تھوڑا ہی ہے ۔ بلا وجہ تحریر اور گفتگو کو جمع کرنا مناسب نہیں ( ملفوظ 237 ) ایک صاحب نے پرچہ پیش کر کے زبانی بھی کچھ عرض کرنا چاہا ، فرمایا کہ یہ خلط بحث کیسا کہ پرچہ بھی زبانی بھی یا تو سب زبانی ہی کہا ہوتا یا سب پرچہ ہی میں لکھ دیا ہوتا اور اگر کسی مصلحت سے دونوں ہی کام کرنے تھے تو اس کا بھی طریقہ یہ تھا کہ پہلے زبانی کہتے اور اس میں پرچہ پیش کرنے کا ذکر کرتے اب دونوں کے جمع کرنے سے میں پریشان ہوں کہ پرچہ میں جو مضمون ہے آیا زبانی اس کے علاوہ کہنا چاہتے ہیں یا جو پرچہ میں لکھا ہے اسی کو زبانی بھی کہنا چاہتے ہیں ایسی باتوں سے بلا وجہ الجھن ہوتی ہے ان لوگوں کو تو محسوس نہیں ہوتا مگر دوسرے کو تو تکلیف ہوتی ہے ۔ ساری دنیا ان کی طرح تو بے حس نہیں ، نہیں معلوم ساری دنیا بد فہموں ہی سے آباد ہے یا ایسے چھنٹ چھنٹ کر میرے ہی حصہ میں آ گئے ، فرمایا کہ اس میں کیا مصلحت تھی کہ پرچہ بھی پیش کر دیا ، زبانی کہنا بھی شروع کر دیا ، عرض کیا کہ غلطی ہوئی اور جو تکلیف میری وجہ سے حضرت والا کو ہوئی ، اس کی معافی کا