ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
اہل اللہ کی شان فنا اور چند واقعات ( ملفوظ 569 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ان حضرات اہل اللہ کی شان فنا ہی جدا ہوتی ہے اور اپنی جماعت کے بزرگ تو ایسے گم ہو کر رہتے تھے کہ کوئی نیا شخص جانتا بھی نہ تھا کہ یہاں پر کوئی رہتا بھی ہے بس اپنے کو مٹائے رکھتے تھے کیا انتہا ہے کہ حضرت مولانا دیوبندی کے یہاں ایک معمولی ہندو ایک مہمان کے ساتھ ٹھر گیا دوسری جگہ مہمان تھا دوپہر کو پڑا سو رہا تھا مولانا نے سوتے ہوئے پیر دبانا شروع کر دیئے مولوی محمود صاحب رامپوری مجھ سے اس حکایت کو بیان کرتے تھے کہ وہ پڑا ہوا خرخر کر رہا تھا اور حضرت مولانا پیر دبا رہے تھے یہ دیکھ کر دوڑے کہ حضرت میں دبا دوں گا سختی کے ساتھ ان کی درخواست کو مسترد کر دیا ایک مرتبہ حضرت مولانا دیوبندی اور میں ایک سٹیشن پر جمع ہو گئے یہ اسٹیشن مراد آباد کا واقعہ ہے سیوہارہ والے بھی جا رہے تھے ، انہوں نے حضرت سے سیوہارہ اترنے کی درخواست کی جو منظور ہو گئی مجھ سے بھی درخواست کی میں نے کسل طبع کا عذر کر دیا ان لوگوں نے کہا کہ ہم وعظ نہ کہلائیں گے میں نے سادگی سے کہا کہ بدون وعظ ہوئے تو روٹی کھاتے ہوئے بھی شرم معلوم ہوتی ہے تو حضرت کیا فرماتے ہیں ہاں بھائی ایسے بے شرم تو ہم ہی ہیں کہ بے کام کے روٹیاں کھاتے ہیں مجھ کو اس قدر شرمندگی ہوئی کہ معذرت بھی پیش نہ کر سکا یہ تو حضرت کی حالت خادموں کے ساتھ تھی متکبرین کی نسبت فرما دیا کرتے کہ ان کو تھانہ بھون بھیجنا چاہئے وہاں ان کا دماغ درست ہو گا اور یہ سب حضرت کی حالت تھی دوسرا کیا سمجھ سکتا ہے اور حال کی یہی شان ہے کہ جس پر گزرتا ہے وہی جانتا ہے دوسرا بیان نہیں کر سکتا خوب کہا گیا ہے ۔ اے ترا خارے بپا نشکستہ کے دانی کہ چیست حال شیرانے کہ شمشیر بلا برسر خورند میں ایک بزرگ کی حکایت بیان کر رہا تھا کہ یہ معلوم کر کے حضور صلی اللہ علیہ و سلم آٹے کو چھنواتے نہ تھے بے چھنے آٹے کی روٹی کھانے لگے جو کے چھلکے سخت ہوتے ہیں ان سے پیٹ میں درد ہو گیا اب ان کا ادب دیکھئے کہتے ہیں کہ یہ درد اس گستاخی کی سزا ہے کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی مساوات کا دعوی کیا جس وقت میں یہ حکایت بیان کر رہا تھا میرے پاس ایک غیر مقلد صاحب بیٹھے تھے کہنے لگے کہ یہ تو خلاف سنت ہے میں نے کہا