ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
پہنچتی ۔ چناچہ حضرت حاجی صاحب سے جب کوئی عرض کرتا کہ حضرت نوکری چھوڑ دوں اس پر حضرت فرماتے کہ نوکری مت چھوڑو کام میں لگو جب کام کرو گے خود بخود نوکری چھوڑ دو گے اور وہ وقت ہو گا کہ اس چھوڑنے کا تحمل ہو گا اور بدون کام کیے ہوئے قوت تحمل کی نہ ہو گی تو ممکن ہے کہ اس چھوڑنے سے ایسی پریشانی ہو جو دین میں مضر ہو ۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نے ایک مرتبہ حضرت حاجی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت میرا ایک جگہ نوکری کا تعلق ہے اگر حضرت اجازت فرمائیں تو چھوڑ دوں ۔ حضرت نے جواب میں فرمایا کہ مولوی صاحب ابھی تک تو آپ پوچھ ہی رہے ہیں یہ پوچھنا خود دلیل ہے تردد کی اور تردد دلیل ہے خامی کی اور خامی کی حالت میں ملازمت کا تعلق چھوڑنا موجب تشویش قلب ہو گا اور جس وقت قلب میں قوت پیدا ہو جائے گی اس وقت خود بخود چھوڑ دو گے ۔ اگر کوئی روکے گا بھی نہ مانو گے ۔ یہ ہے حضرت کی شان مشیخت اور فن کی مہارت کی اور یہ سب حضرت ہی کا صدقہ ہے جس کو میں اس وقت بیان کر رہا ہوں ۔ حضرت اس فن کے امام کے امام تھے ، مجتہد تھے ، مجدد تھے ، حضرت پیدا ہوئے اس زمانہ میں مگر ان میں روح تھی پہلوؤں کی کیسی پاکیزہ اور پرمغز تعلیم فرمائی جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آج رازی اور غزالی نہیں پیدا ہوتے وہ حضرت حاجی صاحب کے ان ملفوظات کو دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ غزالی رازی اب بھی ہوتے ہیں یا نہیں ، یہ شان تھی حضرت کی : برکفے جام شریعت برکفے سندان عشق ہر ہوسنا کے نداند جام و سنداں باختن یکم شوال المکرم 1350 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم سہ شنبہ وقار کب اچھا اور کب برا ؟ ( ملفوظ 118 ) فرمایا کہ آج کل لوگوں میں وقار عرفی کا مرض پیدا ہو گیا ہے جو حقیقت میں کبر ہے اور کبر بڑی ہی مضر چیز ہے اس سے اجتناب کی سخت ضرورت ہے ۔ حق تعالی جس پر اپنا فضل فرمائیں ، وہی بچ سکتا ہے ۔ البتہ جہاں اس میں شرعی مصلحت ہو وہاں اس کی صورت بھی مطلوب ہے اس کے متعلق ایک حکایت امیر شاہ خاں صاحب نے بیان کی ۔