ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
نفس از بس مدحہا فرعون شد کن ذلیل النفس ہونا لا تسد اس لیے طبیعت آزادی کو پسند کرتی ہے ہاں جن کو دکانداری کو ترقی دینا ہے وہاں ضرورت ہے اس سامان کی اور ڈھونگ بنانے کی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسے بزرگوں کو دیکھا ہے کہ جو جامع تھے ظاہر اور باطن کے وہ ان چیزوں کو پسند نہ فرماتے تھے ۔ صاحبو ! ہماری عزت سامان سے نہیں اگر عزت ہے تو بے سروسامانی ہی میں ہے اس بے سروسامانی کے باب میں خوب کہا ہے : زیر بارند درختاں کہ ثمرہا دارند اے خوشا سرو کہ از بند غم آزاد آمد دل فریبان نباتی ہمہ زیور بستند دلبر ماست کہ باحسن خداواد آمد اور اسی کو فرماتے ہیں : نباشد اہل باطن درپے آرائش ظاہر بنقاش احتیاجے نیست دیوار گلستان را بس وہ دولت حاصل کرنا چاہیے جس کے ہوتے ہوئے ان اسباب کی حاجت ہی نہ ہو ۔ ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہی کو دیکھ لیجئے کہ اصلاحی عالم نہ تھے جو رفعت کا ایک بڑا ذریعہ ہے مگر ہزاروں لکھوں پڑھوں کو ان کے سامنے جھکا دیا گیا ۔ اسی چیز کو عارف شیرازی فرماتے ہیں : شاہد آں نیست کہ موئے دمیانے دارد بندہ طلعت آں باش کہ آنے دارد اس دولت کا خاصہ ایسا استغناء ہے جس کی نسبت کہا گیا ہے : از بہر خورش ہر آں کہ نانے دارد وزبہر نشست آستانے دارد نے خادم کس بود نہ مخدوم کسے گو شاد بزی کہ خوش جہانے دارد دیہاتی کے ایک زائد لفظ پر حضرت کی گرفت ( ملفوظ 154 ) ایک دیہاتی شخص نے آ کر عرض کیا کہ اجی بخار کا ایک اور تعویذ دے دو جس سے مفہوم ہوتا تھا کہ ایک تو مل چکا ہے دوسرا اور چاہیے ، فرمایا کہ دودھ تو دیا مگر مینگنیوں بھرا یعنی درخواست تو صاف لفظوں میں کی مگر اس میں ایک لفظ اور ملا دیا جس سے پریشانی ہوئی ۔ غرض یہ ہے کہ سیدھی بات نہ ہو افراط تفریط کلام میں ضرور ہو ۔ حضرت والا نے دریافت فرمایا کہ اور سے کیا مراد ہے اس پر تاویلیں کرنے لگا ، کلام کو کچھ بدلنے لگا ، فرمایا کہ بندہ خدا چپ رہ