ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
تھا کہ تم کو خبر نہیں پرانی جورو اماں ہو جاتی ہے ۔ مطلب یہ کہ اول میں شوق کا غلبہ ہوتا ہے اور پھر انس کا اور مزہ شوق میں زیادہ ہوتا ہے ۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت سنا ہے کہ حضرت مولانا گنگوہی نے ایک مثال فرمائی ہے کورے بدھنے کی کہ اول جس وقت اس میں پانی بھرا جاتا تو بڑا شور سا ہوتا ہے اور بعد میں پرانا پڑنے پر وہ شور نہیں ہوتا بلکہ سکون کا غلبہ ہوتا ہے اس لیے کہ اس کے رگ و ریشے میں پانی سرایت کر چکا ہے ۔ حضرت والا نے فرمایا واقعی عجیب مثال ہے عارفین کو حسن تمثیل کی میراث حضرات انبیاء علیہم السلام سے عطا ہوئی ہے ۔ قاضی بیضاوی نے بھی لکھا ہے کہ انبیاء اور حکماء کی باتوں میں مثالیں بہت ہوتی ہیں وہ حقائق کے تطابق پر اور محسوسات سے معانی کی توضیح پر قادر ہوتے ہیں ۔ ان کو ایک نور عطا ہوتا ہے جس سے ان کو حقائق کا انکشاف ہوتا ہے اسی سلسلہ میں فرمایا کہ مسئلہ قدر کی تحقیق کے لیے ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ وہ کھڑا تھا آپ نے فرمایا کہ اپنا پیر اٹھاؤ ، اس نے اٹھا لیا ، فرمایا کہ اب دوسرا اٹھاؤ ، نہیں اٹھا سکا ، فرمایا کہ بس اتنا اختیار ہے اور اتنا جبر دیکھئے حسی مثال سے ایک دقیق معنی کو کیسا واضح فرما دیا ۔ سبحان اللہ یہ ہیں علوم ۔ حزن سے ترقی باطن ہونے کی تحقیق ( ملفوظ 22 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ حزن سے عبیدت میں شکستگی پیدا ہوتی ہے کہ بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں یا پگھل رہے ہیں اور یہ خود ایک مستقل مجاہدہ بھی ہے اس لیے کہ تکلیف پر اجر کا وعدہ ہے ۔ ایک صاحب کا خط آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ سفر کی وجہ سے معمولات پورے نہ ہو سکے اور اس پر قلق اور حزن ظاہر کیا تھا میں نے لکھ دیا کہ اصلاح میں جو کمی تھی وہ اللہ تعالی نے اس طرح پوری فرما دی وہ کمی یہ ہے کہ کبھی اس ناغہ نہ ہونے سے اعمال میں عجب پیدا ہو جاتا ہے تو اس ناغہ میں اس عجب سے حفاظت ہو گئی مگر اس سے مراد ہر حزن اور گریہ نہیں بلکہ جس حزن اور گریہ پر اجر ہے وہ ہے جو غیر اختیاری ہو مثلا کوئی مصیبت آ پڑی یا یہ کہ اعمال کے متعلق سعی میں لگا ہوا ہے ، کام کر رہا ہے اور پھر اتفاقا بلا قصد کے اس کے خلاف کا صدور ہو گیا ۔ اس پر حزن ہے غم ہے گریہ ہے یہ وہ حزن جو