ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
الہیہ سے غیر معتقد ہو جاتے ہیں حلانکہ یہ جو تعویذ پر آثار مرتب ہوتے ہیں منصوص نہیں اور نہ ان کا کہیں وعدہ ہے ۔ یہ سب گڑبڑ جاہل عاملوں کی بدولت پیدا ہو رہی ہے اس سے عوام کے عقائد تو اس بارے میں نہایت ہی خراب ہیں جن کی اصلاح کی سخت ضرورت ہے ۔ ایک طالب علم کے خط پر مواخذہ ( ملفوظ 317 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک طالب علم کا خط آیا تھا ، لکھا تھا توجہات مربیانہ سے سرفراز فرماتے رہیں اور بھی بعض باتیں زائد اور غیر متعلق اور مبہم لکھی تھیں ، میں نے اس پر متنبہ کیا کل معذرت کا خط آیا ہے ، لکھا ہے کہ بدفہمی اور لاعلمی سے لغزش ہو گئی ، آئندہ ایسا نہیں کروں گا ، معافی چاہتا ہوں ، میں نے لکھ دیا کہ ایک بات متعین کر کے لکھو کہ بدفہمی سبب سے یا لاعلمی یہ گڈمڈ کیسی وہی فضول کا مرض اب بھی رہا یہ دونوں جمع نہیں ہوتے ، دیکھئے کیا جواب آتا ہے ۔ طریق اصلاح بڑا ہی نازک ہے ، ہر شخص مصلح نہیں ہو سکتا ۔ جیسے ہر شخص طبیب نہیں ہو سکتا ۔ دوسرے کو تکلیف سے بچانا حقیقی ادب ہے ( ملفوظ 318 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میرے نزدیک ادب کی حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کو جس چیز سے تکلیف ہو اس سے اجتناب کرنا چاہیے یہی ادب ہے ، صرف تعظیم کا نام ادب نہیں ، اس میں بڑوں کی بھی تخصیص نہیں ، چھوٹوں کا ادب بھی یہی ہے کہ ان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے ۔ گو وہ فعل تکلیف کے لیے موضوع نہ ہو ۔ ایک پیر صاحب کی حکایت ہے کہ مرید اپنی جوتیاں ڈھونڈ رہا تھا ، پیر نے اٹھا کر دے دیں ، سو یہ فعل گو موضوع نہیں تکلیف دینے کے لیے مگر تاہم یہ بڑا ہی ظلم تھا ، بے چارے مرید پر کہ اس کو تکلیف پہنچائی بڑی چیز علم صحیح اور عمل خالص ہے اس کے مقابلہ میں کہ ان کی کرامت کہاں کا کشف اور اگر کرامت ہی مطلوب ہے تو آفاقی کرامت کی ضرورت نہیں انفسی کرامت چاہیے ۔ شیخ کو صاحب حال نہیں صاحب مقام ہونا چاہیے ( ملفوظ 319 ) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ شیخ کو صاحب حال ہونا نافع نہیں اس میں احتمال حدود سے تجاوز کا ہے جس سے مریدین میں گڑبڑ ہو جانے کا اندیشہ