ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
اس قوت کے ہوتے ہوئے تو پھر اکتفا کرنے میں کیا ٹھکانا ہے ۔ ضبط کا اس وقت کے قوی ایسے تھے کہ ایک صحابی کا واقعہ ہے کہ تمام شب بیوی سے مشغول رہتے ، اس قدر قوت ممسکہ تھی سو حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں ایسے تیس مردوں کی قوت تھی تو اس اعتبار سے تو آپ نے نکاح میں بہت تقلیل فرمائی ۔ اسی طرح معترضین کا یہ بھی غلط الزام ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ آپ کو متعارف عشق کا درجہ تھا ۔ آپ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس نویں دن تشریف لاتے تھے اگر ایسے عشق کا درجہ ہوتا تو آٹھ دن کیسے صبر ہوتا پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں ضعف بھی نہ تھا بلکہ شیخوخت میں بھی شباب کی قوت تھی ، نہایت صحیح قوی تھے اور یہ شبہات جو پیدا ہوئے یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کریمانہ سے پیدا ہوئے مگر یہ رعایت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنے متعلقین کے ساتھ شان حاکمانہ تھی ، عاشقانہ نہ تھی نیز یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ گھر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا جو وقت گزرتا تھا زیادہ تر یاد الہی اور اطاعت میں گزرتا تھا شب کو بھی ، دن کو بھی اگر ( نعوذ باللہ ) نفس پرستی ہوتی تو زیادہ وقت اس میں گزرتا مگر وہاں تو اصل چیز یہ عبادت ہی رچی ہوتی تھی قلب میں اس کے علاوہ اور چیزیں بقدر ضرورت تھی پھر ایسے شبہات محض کور چشمی ہے ۔ عام حالات میں عورت کا چار ماہ سے زیادہ نہ صبر کرنا ( ملفوظ 464 ) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ عورت چار ماہ سے زیادہ شوہر کے بدون صبر نہیں کر سکتی مگر صحیح المزاج ہونا شرط ہے ورنہ ضعف اعضاء کی وجہ سے زیادہ بھی صبر کر سکتی ہے ۔ یہ تجربہ کاروں کا قول نقل کرتا ہوں پھر اس کی تائید میں حضرت عمر کا قصہ بیان فرمایا کہ آپ شب کو گشت فرما رہے تھے ایک مکان میں سے کچھ اشعار پڑھنے کی آواز آئی ، نہایت دلکش وہ شوہر کو یاد کر رہی تھی ، آپ حضرت حفصہ کے پاس تشریف لے گئے کہ اے بیٹی میں ایک بات بضرورت دینی دریافت کرتا ہوں ، اس میں حجاب نہ کرنا بتلا دینا ، وہ یہ کہ عورت بدون مرد کے کتنا صبر کر سکتی ہے ، انہوں نے نہایت جبر کر کے جواب دیا کہ چار ماہ پھر اس کے بعد تکلیف ہوتی ہے ۔ یہاں پر ایک بات قابل غور ہے کہ حضرت عمر فاروق