ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
میں نے اصرار کیا اس پر فرمایا کہ جاؤ تم کون ہوتے ہو گڑبڑ مت کرو ، بیچارے کی آنکھ کھل جائے گی ، تکلیف ہو گی ، بس وہ ہندو تو پڑا ہوا خرخر کر رہا تھا اور مزاحا فرمایا کہ ان کا مقدر تھا اور مولانا پاؤں دبا رہے تھے اب مدعی تو بے نفسی کے بہت ہیں مگر ذرا عمل کر کے تو دکھائیں تب حقیقت معلوم ہو ۔ ایک مرتبہ سٹیشن مراد آباد پر حضرت مولانا محمود الحسن صاحب کا اور میرا اجتماع ہو گیا ۔ سیوہارہ کے بھی کچھ حضرات تھے ، انہوں نے مجھے اور حضرت مولانا کو سیوہارہ اتارنا چاہا ، میں نے اضمحلال طبع کا عذر کیا اور حضرت مولانا نے قبول فرما لیا ، لوگوں نے میرے عذر پر کہا ہم وعظ کی درخواست نہ کریں گے جس سے اضمحلال میں تکلیف ہو ، میں نے کہا کہ بدون وعظ کہے تو مجھ کو کسی کی روٹی کھاتے ہوئے بھی شرم معلوم ہوتی ہے ۔ مولانا بے ساختہ کیا فرماتے ہیں کہ ہاں بھائی ایسے بے شرم تو ہم ہی ہیں کہ بلا کام کیے کھا لیتے ہیں میں اس وقت بہت شرمندہ ہوا اور کسی معذرت پیش کرنے کی بھی ہمت نہ ہوئی مگر مولانا بشاش تھے ۔ جوتا روشن دماغ ہے ( ملفوظ 286 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جوتا روشن دماغ ہے اس سے بڑی جلدی فیصلہ ہو جاتا ہے ۔ جوتے پر ایک حکایت یاد آ گئی مولانا شیخ محمد صاحب کے ایک خلیفہ تھے ۔ مولوی رحم الہی صاحب منگلوی پڑوسی ان کو ستایا کرتے تھے ۔ چنانچہ ان کے مکان کے سامنے ایک چوک ہے مشترک اس میں چند مفسدین نے جمع ہو کر ناچ کی تجویز کی اور شامیانہ وغیرہ سب سامان مہیا کیا ۔ ایک طوائف نے آ کر ناچنا شروع کیا ، مولوی صاحب کا راستہ مسجد جانے کا وہی تھا ، نماز کو جاتے ہوئے تو مولوی صاحب نے بمشکل ضبط کر لیا مگر واپسی میں جب تحمل نہ ہو سکا جوتا ہاتھ میں لے کر اور تمام مجمع کے اندر گھس کر اس عورت کے سر پر بجانا شروع کیا مگر کوئی کچھ بولا نہیں اس لیے کہ بزرگوں کی ہیبت خدا داد ہوتی ہے مگر ظاہر ہے کہ اس مارنے کی کوئی وجہ قانونی تو تھی ہی نہیں ۔ نیز فقہاء نے بھی لکھا ہے کہ علماء کا کام زبان سے روکنے کا ہے اور حکام کا کام ہاتھ سے روکنے کا تو اس بناء پر مفسدین بے حد برہم ہوئے اور اس عورت کو بہت زیادہ اشتعال دیا کہ تو دعوی کر ہم سب شہادت دیں گے ہم روپیہ صرف کریں گے ۔