ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
جانتے ہیں ، میں نے کہا کہ اشرف علی میرا ہی نام ہے میں نے سفر میں جیسے کبھی اپنے کو ممتاز نہیں بنایا ، اسی طرح کبھی اپنے کو چھپایا بھی نہیں یہ سن کر ان پر کچھ شگفتگی کے آثار نہیں معلوم ہوئے ، مکرر مجھ سے پوچھا کہ آپ ہی ہیں وہ اس وقت میرے اس کہنے کو جھوٹ سمجھے کہ یہ نام بتلا کر اپنی عزت چاہتا ہے ان کے ذہن میں یہ ہو گا کہ جس کا نام لے کر یہ اپنے کو ظاہر کرتا ہے وہ تو بڑا چوغہ پہنے ہو گا ، بڑا عمامہ سر پر ہو گا اور ایک بڑی تسبیح ہاتھ میں ہو گی ، جیسا کہ پنجاب کے پیر ہوتے ہیں مزاح کے طور پر فرمایا کہ ( وہ پیر تو کیا پیر بھی نہیں ہوتے ) ۔ میں نے کہا صاحب کیا اس شخص کا کوئی حلیہ ہے جو مجھ پر منطبق نہیں ، خاموش ہو گئے مگر متردد رہے ، تھوڑی دیر میں کہا کیا میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ، میں نے کہا پوچھئے جو معلوم ہو گا عرض کر دوں گا ، اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کچھ سوالات کیے ، میں نے ان کے جوابات دیئے تب ان کو یقین ہوا اور پھر تو بہت ہی گرویدہ ہوئے اور تمام راستہ بیچارے اپنے ہاتھ سے خدمت کرتے چلے آئے حتی کہ اسباب بھی سٹیشن تھانہ بھون پر خود ریل سے اتار کر رکھا یہ سب ان کی تواضع تھی بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں نخوت یا کبر نہیں ہوتا ، تکبر بھی بڑی ہی بلا کی چیز ہے مگر بعض دفعہ دیر میں سمجھ آتا ہے ایک شخص ۔ خود لکھا کہ آپ نے جو میرے اندر کبر کا مرض تجویز کیا تھا بالکل صحیح کیا تھا ۔ اب مجھ کو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت میرے اندر کبر کا مرض ہے میں نے اپنے دل میں کہا کہ جا بندہ خدا اب تو علاج بھی ہو جاتا ، پانچ سال تک بیٹھا ہوا اس کو پالتا رہا ۔ غرض یہ مرض نہایت خطرناک ہے اور لوگوں کو کثرت سے اسی میں ابتلا ہے اور اس کے ہی علاج سے غفلت ہے ۔ پورے مشاہدہ کے بغیر رائے قائم کرنا مناسب نہیں ( ملفوظ 269 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بدون کافی مشاہدہ کے یہاں کے طرز کے متعلق لوگ رائے قائم کر لیتے ہیں اس ناتمام فیصلہ کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے ایک شخص نے وعظ میں سنا تھا کہ قبر میں سوال جواب ہوتے ہیں اور منکر نکیر آتے ہیں وہ شخص امتحان کے لیے کسی ٹوٹی ہوئی قبر میں جا کر پڑ گیا ، بہت دیر ہو گئی نہ منکر نکیر نہ سوال جواب ، کچھ بھی