ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
آج کل کے مہمان اور میزبان (ملفوظ 626 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل معاشرت تو اس درجہ خراب ہو گئی ہے کہ قطعا اس کی پرواہ نہیں کی جاتی کہ ہماری اس بات یا کام سے دوسرے کو تکلیف ہو گی یا اس کی پریشانی کا سبب ہو گا اب مہمان داری ہی کو دیکھ لیجئے گاڑیاں چھکڑے بھر بھر کر میزبان کے گھر پہنچ جاتے ہیں نہ یہ خبر کہ اس غریب کے یہاں کھانے کو ہے یا نہیں خصوص کسی کی بیماری یا موت کے موقع پر تو ایسا کرنا نہایت ہی ظلم اور بے رحمی کی بات ہے گھر والے اس کی تیمارداری کو چھوڑ کر ان کی تیمارداری میں لگ جاتے ہیں مردہ کے رونے کو چھوڑ کر ان کا رونا شروع کر دیتے ہیں مشہور ہے کہ مہمانوں کا کھایا ہوا گھر اور چڑیوں کا چگا ہوا کھیت اور چلموں کا مارا ہوا چولہا کبھی پنپ ہی نہیں سکتا مگر مہمانوں کا کھایا ہوا گھر وہ مراد ہے کہ جس کھانے میں تکلف و غلو ہو باقی جس میں تکلف نہیں وہ مراد نہیں سمرقند میں حضرت شیخ سعدی کسی کے یہاں پہنچے میزبان نے بہت تکلفات کئے جب کھانا سامنے آیا تو فرمایا کہ آہ دعوت شیراز میزبان نے اور زیادہ تکلف کیا پھر بھی یہی فرمایا اس نے اپنے دل میں کہا کہ کیا شیراز میں سونا چاندی کھاتے ہیں ایک مرتبہ یہ شخص حضرت سعدی کے یہاں مہمان ہوا پہنچتے ہی ہاتھ دھلوا کر اور جو کچھ دال روٹی تھی لا کر سامنے رکھ دی وہ سمجھا کہ اس وقت نہیں ملا شام کو تکلف ہو گا مگر شام کو بھی وہی پھر دوسرے دن بھی یہی آخر اس شخص نے پوچھا حضرت وہ دعوت شیراز کہاں ہے فرمایا یہی ہے وہ دعوت شیراز اس نے کہا اس میں کیا بات ترجیح کی ہے فرمایا ترجیح یہ ہے کہ اگر تم میرے پاس چار مہینہ بھی ٹھرے رہو تو مجھ پر گرانی نہ ہو گی اور تم چار ہی روز میں دل میں کہنے لگتے کہ خدا کرے جلدی دفع ہو کہاں سے بلا سر پڑی ۔ سچی دوستی کون سی ہے ؟ ( ملفوظ 627 ) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ آج کل دوستی کا نام ہی نام رہ گیا ہے ورنہ حقیقت تو قریب قریب مفقود کے ہے حضرت مولانا گنگوہی کی مجلس میں حافظ محمد احمد صاحب اور مولوی حبیب الرحمن صاحب حاضر تھے جن کی دوستی مشہور و معروف