ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
کر کے دوزخ میں بھیج رہے ہیں ۔ پس وہ کنجی دوزخ کی موافق کیلئے ہے مخالفین کے لیے نہیں ۔ مولوی احمد رضا خان کا حضرت کو سلام ( ملفوظ 61 ) فرمایا کہ ایک مرتبہ ان ہی بدعتی مولوی صاحب کا اتفاق سے بریلی کے سٹیشن پر مقابلہ ہو گیا ، دو چار شخص ان کے ساتھ تھے اور دو چار میرے ساتھ اتفاق سے میری نظر تو نہیں پڑی مگر ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ انہوں نے دور سے بہت بڑے جھک کر سلام کیا ہے میں نے کہا میں نے نہیں دیکھا اس کے بعد ان کو معلوم ہوا کہ فلاں شخص کو میں نے سلام کیا اس قدر جھلائے کہ گاڑی کے آنے میں کچھ دیر تھی پلیٹ فارم پر نہ ٹھرے ، پلیٹ فارم چھوڑ کر کرائے کی گاڑی میں آئے تھے اس میں جا بیٹھے تا کہ میری صورت بھی نہ دیکھے ۔ اب اس طرف کے لوگوں نے شہر میں اڑایا کہ آج تو ایسے مرعوب ہوئے ایسے دب گئے کہ جھک کر سلام بھی کر لیا ، ان کے معتقدین نے اس پر یہ کہا ( اور صحیح بھی کہا ) کہ پہچانا نہیں تھا عام لوگوں نے کہا کہ جی ہاں پہچانا نہیں تھا ایسے بچے تھے دودھ پیتے تھے کچھ جانتے ہی نہیں ۔ یہ عوام الناس کا اتار چڑھاؤ ہے ۔ حضرت حاجی صاحب کا حضرت گنگوہی سے تعلق ( ملفوظ 62 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے متعلقین کی بے حد دلجوئی فرمایا کرتے تھے ، بہت ہی شفیق تھے ۔ میں جب مکہ معظمہ سے واپس ہوا تو حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ مولانا رشید احمد صاحب سے کہہ دینا کہ یہاں پر لوگ آپ کی بہت شکایت کرتے ہیں مگر میں نے آپ کی نسبت ضیاء القلوب میں جو لکھا ہے وہ الہام سے لکھا ہے وہ الہام بدلا نہیں اس لیے لوگوں کی شکایت کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ، آپ اطمینان سے بیٹھے رہو اور یہ بھی فرمایا کہ میری دوستی آپ کے ساتھ اللہ کے واسطے ہے جیسے اللہ کو بقاء ایسے ہی حب فی اللہ کو بھی بقاء ہے ۔ میں گنگوہ پہنچا جا کر عرض کیا کہ حضرت کا کچھ پیام لایا ہوں حضرت پر یہ سن کر ایک ایسی کیفیت پیدا ہو گئی جیسے خوف رجاء کے درمیان کی حالت ہوتی ہے ۔ یہ خیال ہوا کہ نہ معلوم کیا فرمایا ہو گا ، حجرہ میں تشریف لے گئے ، میں بھی ہمراہ ہو گیا ، میں نے سب عرض کیا کہ حضرت نے یہ فرمایا ہے بس شروع ہی سے شگفتگی حضرت پر آ گئی اور