ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
گر ہوائے ایں سفر داری ولا دامن رہبر بگیر وپس بیا درارادت باش صادق اے فرید تابیابی گنج عرفاں را کلید خلاصہ یہ ہے کہ نہ بدون کام کیے کچھ ہوتا ہے اور نہ بدون رہبر کے یہ راہ طے ہوتی ہے اور اس کا دامن پکڑ کر بھی کام جب بنے گا کہ جب اس کے سامنے اپنے کو اور اپنی رائے کو فنا کر دو ، مٹا دو اور اس راہ میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی اس کی ضرورت ہے اور پہلی منزل اور شرط اعظم ہے ۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں : قال رابگذار مرد حال شو پیش مرد کاملے پامال شو بندہ کی ہمت اور حق تعالی کا جذب ( ملفوظ 100 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ بفضلہ تعالی کام سب کچھ ہو سکتا ہے ہمت کی ضرورت ہے بندہ کا فرض کام شروع کر دینا ہے اس میں لگ جانا ہے اور وہ صرف اسی کا مکلف ہے پھر چند روز میں انشاء اللہ تعالی سب کچھ ہو رہے گا ، ہمت تو وہ چیز ہے کہ پہاڑوں کو ہلا دیتی ہے اہل تواریخ نے حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کی ہمت کی ایک حکایت لکھی ہے جس وقت زلیخا نے مکان میں حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کو بلایا ہے تو اس مکان کے یکے بعد دیگرے سات درجے تھے اور ساتوں مقفل کر دیئے گئے تھے اور قفل بھی نہایت مضبوط تھے مکان کو اس قدر محفوظ کر کے تب زلیخا نے اپنی خواہش کا اظہار کیا مگر قوت کے سامنے ایک بھی زلیخا کی نہ چلی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ قوت نبوت ہی تھی جو سیدنا یوسف علیہ السلام کا اتنا قوی توکل رہا ورنہ دوسرا تو سر کے بل آ کر گر جاتا ۔ غرض مکان سب مقفل اس میں سے نکل جانے کے لیے کوئی راستہ بظاہر نظر نہیں آتا تھا مگر اللہ رے ہمت اور بھروسہ اس وقت آپ پر یہ حال غالب ہوا کہ مجھ کو اپنا کام کرنا چاہیے ، آگے ان کا کام ہے ضرور مدد فرمائیں گے ۔ غرض یہ کہ سیدنا یوسف علیہ السلام وہاں سے توکل پر بھاگے اور زلیخا پیچھے دوڑیں جس دروازہ پر آپ علیہ السلام پہنچتے تھے پہنچنے سے قبل اس کا قفل ٹوٹ کر کواڑ کھل جاتے تھے ، ساتوں دروازوں کو اسی طرح طے کر گئے اور عفت اور عصمت کے