ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
اسامہ ابن زید صحابی ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک عورت فاطمہ نامی کو چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنے کی سزا کا حکم دیا تو حضرت اسامہ نے سفارش کی حضور صلی اللہ علیہ و سلم برہم ہو گئے اور فرمایا کہ حدود کے باب میں سفارش کرتے ہو ، واللہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی ایسا کرتی اس پر بھی حد جاری کرتا ۔ سو دیکھئے اسامہ پر آپ برہم ہوئے ۔ صاحبو ! جو بات برہمی کی ہو گی اس میں برہمی تو ہو ہی گی جیسے کوئی کسی کے سوئی چھبو دے تو اس کی سوزش اور جلن تو ہو ہی گی اور اس سوزش میں وہ شکایت بھی کرے ہی گا اور یہ شکایت اور برہمی دوسروں کی نافع بھی ہو گی ۔ اگر اس جگہ رعایت کرے تو سخت مضرت ہے جیسے آپریشن کی جگہ اگر مرہم رکھ دے تو ظاہر ہے اندر ہی اندر مادہ بڑھ کر سڑ جائے گا اور سبب ہلاکت کا ہو گا ۔ پھر اگر رعایت سے دوسرا شخص بھی رعایت کرے تو اس کا بھی مضائقہ نہیں ۔ مگر یہ بات بھی لوگوں میں نہیں رہی کہ جو ہماری رعایت کرے ہم اس کی رعایت کریں ۔ ذلیل کر کے اور تابع بنا کر خدمت لینا چاہتے ہیں سو اس میں طریق کی ذلت ہے گو ہم کوئی چیز نہیں ۔ بد فہمیوں کی ناخوشی خوشی ( ملفوظ 298 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعضے لوگ جو مجھ سے ناخوش ہو جاتے ہیں میں تو خوش ہوتا ہوں کہ بد فہموں سے نجات ملی ، امام کے پیچھے جس قدر مقتدی کم ہوں راحت ہی ہے کیونکہ اگر نماز میں کوئی خرابی آ جائے تو تھوڑوں ہی کو اطلاع دینی پڑے گی ۔ یہاں کا تو یہ طرز ہے کہ نہ بیعت کا جھگڑا اس لیے کہ آج کل اکثر یہ مشغلہ دکانداروں کا اور رسمی پیروں کا رہ گیا ہے ان کے یہاں اس کا تو اہتمام ہی نہیں کہ اصلاح ہو ، روک ٹوک ہو ، بس شب و روز مجمع بڑھانے کی فکر اور نہ یہاں وہ مشغلہ جیسے اکثر درباروں میں ہوتا ہے ۔ مثلا یہاں پر نہ دیرہ دون کی چائے کا ذکر نہ سہارن پور کے گنوں کا ذکر نہ شملہ کی ناشپاتیوں کا ذکر الحمد للہ صرف مشاغل دینیہ ہی کا شغل ہے ۔ ماہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم الاحدیث یار کی تکرارمی کنیم مشائخ کے درباروں کی طرح ایسی چیزوں کا ذکر ہی نہیں ۔ حضرت میں تو نہ چائے پیوں نہ پلاؤں نہ چاول کھاؤں نہ کھلاؤں یہاں تو روکھا سوکھا معاملہ ہے اگر پسند ہوں آئیں ورنہ اپنے گھر بیٹھیں بلانے کون جاتا ہے ۔