ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
سے بھی اونچا لگا ہوا تھا عشاء کی نماز پڑھ کر جو میں آیا اور ساتھی بھی ہمراہ تھے تو یہ معلوم ہوا کہ ادھر سے ایک مجمع چلا آ رہا ہے میں نے کہا کہ دیکھئے آرام کے وقت بھی لوگ پیچھا نہیں چھوڑتے چلے آ رہے ہیں ایک ساتھی نے کہا کہ صاحب سامنے شیشہ ہے اس میں ہم ہی لوگوں کا عکس پڑ رہا ہے اس وقت میرا اعتراض اس کا مصداق ہو گیا ۔ حملہ برخود میکنی اے سادہ مرد ہمچو آں شیرے کہ بر خود حملہ کرد ۔ 9 ذی الحجہ 1350 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم شنبہ خرچ گھٹانے کی فکر کرنی چاہئے ( ملفوظ 568 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میرٹھ میں ایک صاحب تھے رئیس انہوں نے ایک عجیب اور مفید بات کہی کہ اکثر لوگ آمدنی بڑھانے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں یہ غلطی ہے اس لئے کہ آمدنی بڑھانا غیر اختیاری ہے خرچ کم کرنے کی فکر چاہئے اور یہ اختیاری ہے یہ بات مجھ کو تو بہت ہی پسند آئی کہ رئیسوں کا ایسی مفید باتوں کی طرف ذہن بھی نہیں جاتا وہ تو شب و روز اور ہی دھن میں رہتے ہیں اور چونکہ اصول صحیحہ کا نہ علم نہ عمل تو بتلایئے کہ مسلمانوں کی تجارت چلے کیسے ایک عزیز تھے انہوں نے چاولوں کی تجارت کی جب جی چاہا گھر والوں نے چاول نکال لئے اور پلاؤ پکا لیا چند روز میں سب ختم ۔ ایک اور عزیز تھے گنگوہ میں انہوں نے کپڑے کی تجارت کی جب گٹھڑی آتی گھر والوں کو اجازت دی جاتی کہ اپنی پسند کے کپڑے نکال لو آخر نتیجہ یہ ہوا کہ سب ختم ایک آفت غیر محدود ادھار دے دینے کی ہے ایک شخص مجھ سے کہنے لگے کہ بدون ادھار کے دکان نہیں چلتی میں نے کہا کہ جی ہاں ایسی چلتی ہے کہ بلکل ہی چل دیتی ہے میرٹھ میں ایک بزاز تھا وہ ادھار نہیں دیا کرتا تھا اور ایک عجیب بات کہا کرتا جو عنوان میں تو ایک نکتہ ہے شاعرانہ مگر مضمون معنی خیز ہے کوئی گاہک آیا اور اس نے کپڑا پھڑوایا اور داموں کا کہا کہ پھر بھیج دوں گا وہ کپڑا اٹھا کر رکھ لیا کہا کرتا تھا کہ ہم اور ہمارا سودا یہ دو ہوئے اور وہ اس کے دام یہ دو ہوئے برابر کا مقابلہ ہے اب اگر ہم نے سودا دے دیا تو وہ اور دام اور سودا تین ہو گئے اور میں بے چارہ اکیلا رہ گیا تو ایک تین کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔