ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
تھی اس کو تو لوگوں نے مستور بلکہ مقصود ہی کر دیا ۔ شیخ کو تو ایسا حکیم ہونا چاہیے جیسے ایک بزرگ کے پاس ایک شخص مرید ہونے گئے ، بزرگ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ مال ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کو مال سے محبت ہو گی ، عرض کیا کہ سو روپیہ ہیں ، فرمایا ان کو علیحدہ کر کے آؤ عرض کیا بہت اچھا ، دریافت فرمایا کہ کس طرح کرو گے ، عرض کیا کہ مسکین کو دیدونگا ، فرمایا کہ اس میں تو حظ ہو گا نفس کو کہ ہم نے بڑی سخاوت کی ، دریا میں پھینک کر آؤ عرض کیا کہ بہت اچھا دریافت فرمایا کہ دریا میں کس طرح پھینکو گے ، عرض کیا کہ ایک دم سب کو لے جا کر پھینک آؤں گا ، فرمایا کہ نہیں ایک روپیہ روز پھینک کر آؤ تاکہ نفس پر روزانہ آرا چلا کرے ۔ یہ ہے شیخ ہونے کی شان ، امراض کا علاج مثل طبیب کے کرتے ہیں ، سب کو ایک ہی لکڑی نہیں ہانکتے ، بعض سے مال جدا کراتے ہیں اور بعض کو مال جمع کرنے کو کہتے ہیں بعض مشائخ نے تو سلطنت تک ترک کرا دی جس کو آج انتہائی معراج کا زینہ لوگ سمجھتے ہیں اور جس کے پیچھے دین ایمان قربان کرنے کو تیار ہیں ۔ معلوم بھی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا اصل راز یہ ہے کہ وہ دنیا کو قلب سے نکالیں ، گو ہاتھ میں بقدر ضرورت رہے قلب تو بس حق تعالی ہی کے رہنے کی جگہ ہے ۔ صاحبو ! قلب کو صاف رکھو نہ معلوم کس وقت نور حق اور رحمت حق قلب پر جلوہ گر ہو جائے اس لیے ہر وقت اس کے مصداق بنے رہو ۔ یک چشم زدن غافل ازاں شاہ نباشی شاید کہ نگاہے کند آگاہ نباشی ( اس بادشاہ کی طرف ایک لمحہ کو بھی غافل نہ ہو ممکن ہے کہ وہ توجہ فرما دے اور تجھے خبر بھی نہ ہو ) ان فضولیات کو چھوڑو کیوں اپنی عاقبت خراب کرتے ہو مسلمانوں اور کافروں میں تو یہی فرق ہے کہ مسلمان عاقبت کی فکر میں لگے ہیں اور دنیا کو چھوڑے ہوئے ہیں اور کفار عاقبت کو چھوڑے ہوئے ہیں اور دنیا کی فکر میں لگے ہیں ان کفار کی انہماک کی بالکل یہ حالت ہے : عاقبت سازد ترا ازدیں بری ایں تن آرائی و ایں تن پروری ( یہ بدن کے بناؤ سنگھار میں لگا رہنا انجام کار تیرے دین ہی کو برباد نہ کر دے ۔ ) اور اسی مضمون کو فرماتے ہیں جس میں مسلمانوں اور کافروں کے مقصود کا فرق معلوم ہوتا ہے ۔ انبیاء در کار دنیا جبری اند کافراں درکار عقبے جبری اند