ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
تہذیب پر عمل نہ کروں گا بلکہ تھانہ بھون کی تہذیب پر عمل کروں گا ، تو میں نے سادگی کو تہذیب کی فرد بنا دی ۔ حیدر آباد ہی کا واقعہ ہے ایک جج آئے میرے قدم چومنا چاہتے تھے ، صورت یہ تھی کہ میں چلنے کی تیاری کر رہا تھا اور ایک چارپائی پر پیر لٹکائے ہوئے اسباب بندھوا رہا تھا وہ پیروں کی طرف بڑھے ، میں نے کہا کہ ذرا ٹھرئیے میں آرام سے بیٹھ جاؤں ، وہ رک گئے ، میں نے پیر سمیٹ کر پلنگ پر رکھ لیے اور قدموں کو ران کے نیچے چھپا لیے اور کہا کہ اب اجازت ہے آپ جو چاہیں کریں رہ گئے ، اپنا سا منہ لے کر وہاں پر تو پیر اچھی خاصی پرستش کراتے ہیں حقائق تو ان جاہل پیروں کی وجہ سے بالکل ہی مستور ہو گئے ، بس رسوم رسوم رہ گئے ہیں انہیں رسوم کو مٹانا چاہتا ہوں ، اسی پر لوگوں سے آئے دن لڑائی رہتی ہے ۔ حضرت شیخ الہند کی بے نفسی ( ملفوظ 285 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ہمارے بزرگوں کی عجیب شان تھی کوئی ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتا ۔ مولوی محمود صاحب رام پوری نے مجھ سے حضرت مولانا محمود صاحب کی ایک حکایت بیان کی مجھ کو تو حیرت ہو گئی اور لوگ تو اپنا احترام اپنی خدمت اپنی پرستش چاہتے ہیں اور ان حضرات کی یہ حالت تھی کیا ٹھکانا ہے اس بے نفسی کا انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں اور میرے ساتھ ایک ہندو ایک مقدمہ کے سلسلہ میں دیوبند آئے ، دیوبند پہنچ کر اس ہندو نے مجھ سے پوچھا کہ تم کہاں ٹھرو گے ، میں نے کہا کہ میں مولانا کے یہاں قیام کروں گا ، وہ ہندو بولا کہ جی میں روٹی تو اپنے اقارب میں کھا لوں گا ، باقی سونے کے واسطے اگر کوئی چھوٹی سی چارپائی مجھ کو بھی مل جائے تو وہاں ہی ٹھر جاؤں گا ، میں نے کہا کہ مل جائے گی تو روٹی کھا کر آ جانا ایسا ہی ہوا میں نے حضرت مولانا کی بیٹھک میں ایک چارپائی اس کے لیے الگ بچھا دی ، ایک چارپائی پر لیٹ گیا وہ ہندو تو پڑتے ہی سو گیا اور میں جاگ رہا تھا کہ حضرت مولانا دبے پاؤں زنانہ مکان سے تشریف لائے اور اس ہندو کی چارپائی کی پٹی پر بیٹھ کر اس کے پیر دبانے لگے ، میں ایک دم چارپائی سے کھڑا ہو گیا اور جا کر عرض کیا کہ حضرت چھوڑ دیں میں دبا دوں گا ، فرمایا کہ یہ تمہارا حق نہیں میرا مہمان ہے ، یہ خدمت میرے ذمہ ہے