ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
ہے نام کے بزرگ اس زمانہ میں بہت ہیں کام کے بہت کم ہیں ہاں اگر خود فہیم ہو کہ اندیشہ نہ ہو اپنے پھسلنے کا اور دوسروں کی مضرت کا اندیشہ نہ ہو تو مضائقہ نہیں عرض کیا کہ دوسروں کی مضرت کا اندیشہ نہ ہو یہ تو مشکل معلوم ہوتا ہے فرمایا کہ اس کا بھی فہم سے تعلق ہے اب اس کو آپ خود سمجھ لیں ، میں نے تو ایک کلیہ بیان کر دیا جزئیات کو آپ خود منطبق کر لیں ۔ اس راہ میں تنہا قدم رکھنا خطرناک ہے ( ملفوظ 166 ) ایک صاحب نے سوال کیا کہ کبھی حضرت حاجی شاہ سے بھی ملے ہیں ( یہ ایک تارک الصلوۃ درویش تھے ) فرمایا کہ ایک مرتبہ کان پور آئے تھے ، میں نے ملنا چاہا تھا مگر عوام کے اندیشہ سے نہیں ملا کہ غلط فہمی میں مبتلانہ ہو جائیں ، پھر فرمایا کہ کان پور میں ایک شخص آگرہ کے تھے ، پوسٹ ماسٹر ان کے والد کبھی کبھی ان سے ملنے آیا کرتے تھے ، باقر علی نام تھا ، یہ بزرگ حضرت نواب قطب الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مرید تھے ، خوش عقیدہ آدمی تھے اور حاجی وارث علی شاہ کے لنگوٹیا یار تھے ، انہوں نے ان کا واقعہ مجھے بیان کیا کہ حج کے جانے سے قبل تو یہ نماز روزہ کے پابند تھے مگر حج سے آ کر نماز روزہ چھوڑ دیا ، میں نے وجہ پوچھی تو کہا کہ میں نے ایک عمل پڑھا ہے ، اگر نماز پڑھوں اس کا اثر جاتا رہے گا ۔ ایک اور فہیم اور منصف مزاج جو پہلے ان سے بیعت بھی تھے پھر تعلق قطع کر دیا تھا ، بیان کرتے تھے کہ ان پر ایک ربودگی کی سی کیفیت رہتی تھی ۔ ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ربودگی کبھی شیطانی اثر سے بھی ہوتی ہے ۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا ممکن ہے کہ یہ اثر درجہ مغلوبیت تک پہنچ کر عذر میں شمار ہو اور حق تعالی معاف فرمائیں ، فرمایا کہ کیا اللہ تعالی کو کسی سے کوئی ضد ہے کہ وہ بہانے ڈھونڈ ڈھونڈ کر عذاب فرماتے ہیں ؟ ما یفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم و امنتم و کان اللہ شاکرا علیما ترجمہ : " یعنی حق تعالی تم کو عذاب کر کے کیا کریں گے اگر تم خدا کا شکر کرو " ( مراد اس سے یہ ہے ) کہ ایمان ( کامل ) اختیار کرو ۔ سبحان اللہ کیسی رحمت سے بھرا ہوا کلام ہے کیسی بندوں کے ساتھ شفقت ان جملوں سے معلوم ہوتی ہے ۔