ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
بہت خوش ہوئے اور فرمایا بھائی ہم تو کل کیے بیٹھے ہیں لوگ جو چاہیں کریں ۔ 30 رمضان المبارک 1350 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم دو شنبہ ایک دن میں 26 استفتاء کے خطوط کا جواب ( ملفوظ 63 ) فرمایا کہ آج بحمد اللہ تعالی میں فتاوی کا جواب لکھ کر فارغ ہو گیا ۔ چھبیس خط تھے اور اکثر خط میں قریب قریب چار پانچ سوال اوسط تین رکھ لیجئے گا ۔ قریب پچھتر اسی کے سوالات ہوئے ، خدا کے فضل سے ڈیڑھ گھنٹے میں جوابات ہو گئے ، جی یہ چاہا کہ عید سے پہلے فارغ ہو جانا چاہیے ۔ عید کے روز کوئی بار نہ ہو ایک آدھ میں بوجہ زیادہ پیچیدہ ہونے کے یہ بھی لکھنا پڑھا کہ اس میں ضرورت ہے روایتوں کی دیکھنے کی اور مجھ کو اس کی فرصت نہیں ۔ آج کل کے تکلفات اور بے تکلفی کی راحت ( ملفوظ 64 ) فرمایا کہ میں تو فتوے لکھنے میں مشغول تھا ۔ ایک ضعیف شخص نے آ کر بہت ہی ستایا ، مرنے کے قریب ہیں مگر اب تک سلیقہ نہیں ، میں نرمی سے اپنی عدیم الفرصتی کا عذر کرتا رہا مگر وہ مرغ کی ایک ہی ٹانگ ہانکے چلے گئے جب میں نے وہی ضابطہ کا طرز اختیار کیا سیدھے ہو گئے اور اٹھ کر چل دیئے ۔ اب بتلائیے مجھ پر لوگ الزام لگاتے ہیں میرے یہاں جس قدر قواعد ہیں وہ ایسے ہی کوڑ مغزوں کے لیے ہیں خود قواعد مقصود نہیں اگر مقصود ہوتے تو کسی شخص کا بھی استثناء نہ ہوتا ۔ مقصود تو یہ ہے کہ نہ مجھ کو اذیت ہو نہ ان کو اور میری تو ہر بات کی شکایت ہوتی ہے ۔ ذرا دوسرا مشائخ اور پیروں کے یہاں جا کر دیکھو کیسی کیسی خدمتیں لیتے ہیں اور کیسے کیسے ادب و تعظیم کراتے ہیں کئی کئی دن دربار میں باریابی نصیب نہیں ہوتی ۔ اگر ہو بھی گئی تو بول نہیں سکتے ، دست بستہ کھڑے رہتے ہیں ، کہیں دست بوسی ہے کہیں پا بوسی ہے کہیں چڑھاوے اور نذرانے ہیں ۔ غرضیکہ سر سے پیر تک قیود ہی قیود بس ایسے کوڑ مغز اور بدفہموں کی ایسی ہی جگہ کھپت ہے ۔ میں نے حیدر آباد میں دیکھا ہے کہ مشائخ تک میں بڑا تکلف ہے اور ان کے جو حالات سننے میں آئے ان سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعضے پیر تو وہاں کے فرعون ہیں ۔ ماموں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حیدر آباد کے