ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
ایک اور بات کہا کرتا ہوں کہ خواہ کسی کے دل میں چاہے طمع ہی ہو مگر دین کی عزت سنبھالنے کے لئے علماء کو یہی طرز استغناء کا اختیار کرنا چاہیے گو ریاء ہی سے ہو ایک شخص بمبئی کے علاقہ کے یہاں پر آئے تھے چمڑے کی تجارت کرتے تھے انہوں نے مجھ کو کچھ ہدیہ دیا اس کے بعد مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا میں نے بتلا دیا کہنے لگے کہ القاسم میں اس طرح لکھا ہے میں نے کہا کہ کیا میں دنیا بھر کا ذمہ دار ہوں اور میں نے کہا کہ اگر اس پر عقیدہ ہے تو پھر مجھ سے کیوں پوچھا اور اگر عقیدہ نہیں تو میرے بتلانے پر اسے کیوں پیش کیا اور میں نے ان کا وہ ہدیہ واپس کر دیا پس ہوش بجا ہو گئے ان کے دماغ اس طرح درست ہوتے ہیں مجذوبین کو دیکھ لیجئے کہ وہ امراء کو گولیاں دیتے ہیں پھتر مارتے ہیں اور یہ ہیں کہ ہاتھ جوڑے سامنے کھڑے ہیں اور مزید برآں کوئی روپیہ پیش کر رہا ہے کوئی مٹھائی پیش کر رہا ہے وہاں یہ گت بنتی ہے اور پھر معتقد اور جو تہذیب کے سبب ان کی رعایت کرتا ہے یہ لوگ اس کے سر پر سوار ہو جاتے ہیں بس فرق یہی ہے کہ مجذوبین کو مستغنی سمجھتے ہیں اور رعایت کرنے والوں کو اپنامحتاج ۔ عالم ہو کر بھی کسی کے سامنے جا کر پامال ہونا ضروری ہے ( ملفوظ 558 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں تو کہا کرتا ہوں کہ عالم ہو کر کتابیں پڑھ کر بھی کسی کے سامنے جا کر پامال ہو جائے کسی کی جوتیاں سیدھی کرے تب انسانیت اور آدمیت پیدا ہوتی ہے ۔ امراء تعلق کی وجہ سے نہیں تملق کی وجہ سے حقیر سمجھتے ہیں ( ملفوظ 559 ) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ خوش اخلاقی اور حسن معاشرت اور تعلق اور چیز ہے تملق اور چیز ہے تملق کا رنگ جدا ہوتا ہے اعتدال و حدود کے ساتھ تعلق اتنی نفرت کی چیز نہیں تملق نہایت بری چیز ہے امراء جو حقیر سمجھتے ہیں وہ صرف تملق کی وجہ سے سمجھتے ہیں اہل علم کی شان کے بالکل خلاف ہے کہ وہ امراء کے دروازوں پر جائیں اس میں دین کی تحقیر ہوتی ہے یہ تو وہ طبقہ ہے کہ پہلے زمانہ میں نقل کرنے والے بھی اس سے پرہیز کرتے تھے ۔ عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ جب تخت نشین ہوئے اور لوگوں کو انعام تقسیم