ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
کو کھڑے ہو جاتے ہیں اس قدر خر دماغ آدمی تھے میں تو اسی وجہ سے متکبرین کو منہ نہیں لگاتا کہ یہ دین اور اہل دین کو حقیر اور ذلیل سمجھتے ہیں ان کو یہ دکھلاتا ہوں کہ تم اگر خر دماغ ہو تو ملانوں میں بھی اسپ دماغ ہیں اور اکثر یہ مالدار ہوتے بھی ہیں بے عقل اور ان کا بے عقل ہونا خود ان کا اقراری ہے چنانچہ کہتے ہیں کہ سو روپیہ میں ایک بوتل کا نشہ ہوتا ہے اگر کسی کے پاس ہزار روپیہ ہے تو اس کو دس بوتلوں کا نشہ ہوا اتنے نشہ میں پھر عقل کا کیا کام اس اقراری لقب پر ایک اور قصہ یاد آیا ایک طالب علم کو کسی دنیادار نے مسجد کا مینڈھا کہا تھا اس نے کہا کہ دنیا کے کتوں سے تو پھر اچھے ہیں اس جواب میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ مسجد کا مینڈھا تو ان کا دعوی ہے جس میں دلیل کی ضرورت ہے اور دنیا کا کتا ہونا اقرار ہے جو خود دلیل ہے اب تو ان دنیا پرستوں کی بدتمیزی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایک شخص نے مجھ سے ایک ایسے امام کی نسبت جن کے اعضا قدرتی طور پر ناقص اور ضعیف تھے پوچھا تھا کہ کیا صحت امامت کے لئے امام کے ہاتھ پاؤں کا صحیح اور قوی ہونا بھی شرط ہے میں نے کہا کہ یہ شبہ کاہے سے ہوا کہنے لگے میں یہ سمجھا کہ جیسے قربانی میں شرط ہے شاید اس میں بھی شرط ہو یہ سوال محض تمسخر سے تھا میں نے تو ایک دنیا دار سے اس کا گھمنڈ توڑنے کے لئے کہا تھا کہ تم جو ہم مسکین طالب علموں کو اپنا محتاج سمجھتے ہو یہ محض ناحقیقت شناسی ہے حقیقت سنو کہ ایک چیز ہمارے احتیاج کی تمہارے پاس یعنی مال اور ایک چیز تمہارے احتیاج کی ہمارے پاس ہے یعنی دین مگر اتنا فرق ہے کہ جو چیز تمہارے پاس ہے وہ تو بقدر ضرورت بحمد اللہ ہمارے پاس بھی ہے اور جو چیز ہمارے پاس ہے وہ تمہارے پاس بقدر ضرورت بھی نہیں تو ہم تو عمر بھر بھی تم سے مستغنی رہ سکتے ہیں اور تم ایک منٹ بھی ہم سے مستغنی نہیں رہ سکتے سو آپ کے پاس تو آپ کے اس دعوی کی کہ اپنے کو محتاج الیہ کہتے ہو کوئی دلیل نہیں اور ہمارے پاس پمارے اس دعوی کی کہ تم کو اپنا محتاج کہیں دلیل ہے حاصل یہ کہ ہر مسلمان کو دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے بقدر ضرورت دنیا کی بھی اور آخرت کی بھی تو اس احتیاج باہمدگر دنیا میں تو ہم اور آپ دونوں شریک ہیں مگر اوپر کے تفاوت سے ہم تو تمہارے دروازہ سے ہمیشہ مستغنی رہ سکتے ہیں اور آپ ہمارے دروازہ سے ایک منٹ کے لئے بھی مستغنی نہیں ہو سکتے غرض مالداروں سے اس طرح رہنا چاہیے اور میں تو