ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
یہ تو تعلیم یافتہ بیرسٹری پاس کیے ہوئے ہے اس کو کیا سوجھی یہ بھی کوئی فخر کرنے کی بات تھی ۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ ضعیفی میں سوائے بیوی کے کوئی کام نہیں آ سکتا ، ایسے بہت سے واقعات ہیں ۔ شاہ جہان پور میں ایک صاحب نے نوے برس کی عمر میں شادی کی تھی ، لڑکے لڑکیاں بہوئیں سب خلاف تھے اور یہ کہتے تھے کہ ہم خدمت کو موجود ہیں ۔ آپ کو نکاح کی ضرورت ہی کیا ہے بڑے میاں نے کہا کہ تم میری مصلحت کو کیا سمجھ سکتے ہو ، اتفاق سے بڑے میاں بیمار ہو گئے اور بیماری بھی دستوں کی اور ان دستوں میں تعفن بے حد کہ مکان تک سڑ جاتا تھا ، لڑکے لڑکیاں وغیرہ میں سے کوئی پاس نہ آیا ، سب نفرت کرتے تھے ، اس بیوی بے چاری نے خدمت کی اور ذرا نفرت نہیں کی ، باوجود اس کے کہ نئی شادی ہو کر آئی تھی اور عمر بھی تھوڑی تھی ایسا تعلق ہوتا ہے بیوی کو خاوند سے جس کی خاوند صاحب کو قدر بھی نہیں ہوتی ۔ دوسرا واقعہ ایک صاحب بڑے آدمی تھے انہوں نے نکاح کیا مگر ان کو ضعف تھا کشتوں وغیرہ سے کام چل جاتا تھا ایک طبیب نے نہایت گرم کشتہ دے دیا جس سے ان کو جذام کا مرض ہو گیا ، تمام بدن پھوٹ نکلا ، کوئی پاس جانا بھی گوارا نہ کرتا تھا مگر بیوی کے اولاد ہوتی تھی تو ایسی حالت میں بھی اس نے نفرت نہ کی اور کسی خدمت سے عذر نہ کیا ، کیا ٹھکانا ہے اس تعلق اور ایثار کا دوسرا کر نہیں سکتا ۔ تیسرا واقعہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آخر وقت میں نکاح کیا تھا محض اس وجہ سے کہ حضرت کو ناسور کا مرض ہو گیا تھا اس کی دیکھ بھال سوائے بیوی کے ہو نہیں سکتی تھی وہ بی بی بیچاری برابر اپنے ہاتھ سے شب و روز میں کئی کئی مرتبہ دھوتیں اور صاف کرتیں تھیں ، نہایت خوشی کے ساتھ کوئی گرانی یا نفرت ان کو نہ ہوتی تھی ، دنیا میں کوئی اس تعلق کی نظیر پیش نہیں کر سکتا ۔ چوتھا واقعہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آخر عمر میں نکاح کیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت پیرانی صاحبہ نابینا ہو گئیں تھیں ۔ حضرت نے محض خدمت کی غرض سے نکاح کیا تھا ۔ یہ بی بی حضرت کی بھی خدمت کرتیں اور پیرانی صاحبہ کی بھی ۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ عورت محض شہوت ہی کے لیے تھوڑا ہی ہوتی ہے اور بھی مصالح اور حکمتیں ہیں ۔