ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
کی رہے گی مگر لوگ اپنی راحت و مصلحت کا خیال کر کے بھی تو ان کی رعایت نہیں رکھتے اور میں یہ نہیں کہتا کہ جورو کے غلام بن جاؤ ہاں یہ ضرور کہتا ہوں کہ حدود کی رعایت رکھو اور ظلم تک نوبت نہ پہنچاؤ ۔ اگر کبھی ضرورت ہو دباؤ بھی دھمکاؤ بھی کوئی حرج نہیں ، حاکم ہو کر رہنا چاہیے اور محکوم کو محکوم بن کر لیکن جیسے محکوم کے ذمہ حاکم کے حقوق ہیں اسی طرح حاکم کے ذمہ محکوم کے بھی حقوق ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے برتاؤ کرنا چاہیے ایک مولوی صاحب فرماتے تھے کہ عورتوں کے ذمہ واجب ہے کھانا پکانا ۔ میری رائے ہے کہ ان کے ذمہ واجب نہیں میں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے عدم وجوب پر ۔ و من ایاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا و جعل بینکم مودۃ و رحمۃ حاصل یہ ہے کہ عورتیں اس واسطے بنائی گئی ہیں کہ ان سے تمہارے قلب کو سکون ہو ، قرار ہو جی بہلے ، تو عورتیں جی بہلانے کے واسطے ہیں نہ کہ روٹیاں پکانے کے واسطے اور آگے جو فرمایا کہ تمہارے درمیان محبت و ہمدردی پیدا کر دی ہے ، میں کہا کرتا ہوں ، مودۃ یعنی محبت کا زمانہ تو جوانی کا ہے اس وقت جانبین میں جوش ہوتا ہے اور ہمدردی کا زمانہ ضعیفی کا ہے دونوں کا اور دیکھا بھی جاتا ہے کہ ضعیفی کی حالت میں سوائے بیوی کے دوسرا کام نہیں آ سکتا ۔ اس ضعیفی اور ہمدردی پر ایک حکایت یاد آئی ۔ ایک مقام میں ایک ولایتی رئیس تھے ، گورنمنٹ میں ان کا بڑا اعزاز اور بڑی قدر تھی یہ کابل سے یہاں پر آ کر رہے تھے ۔ گورنمنٹ نے کچھ گاؤں دے دیئے تھے ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا ، کلکٹر صاحب تعزیت کے لیے آئے ، ملاقات ہوئی ۔ کلکٹر صاحب نے فرمایا کہ آپ کی بیوی کا انتقال ہو گیا ، ہم کو بڑا رنج ہوا اس پر یہ ولایتی صاحب اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں فرماتے ہیں کلتر صاحب ( کلکٹر صاحب ) وہ ہمارا بیوی نہ تھا ہمارا اماں تھا ہم کو گرم گرم روتی ( روٹی ) کھلاتا تھا ، پنکھا جھلتا تھا ، تھندا تھندا ( ٹھنڈا ٹھنڈا ) پانی پلاتا تھا ، یہ کہتے جاتے اور روتے جاتے تھے ، خیر وہ تو ولایتی تھے کچھ ایسے لکھے پڑھے نہ تھے اپنی سادگی سے ایسا کہہ دیا مگر ایک ہندو لیڈر نے اپنے ایک لیکچر میں یہ ہی کہا کہ یہ میری بیوی نہیں اماں ہے یہ میں نے خود ایک اخبار میں دیکھا ہے