ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
دے دیتی ہیں ، ان باتوں کی رعایت رکھنا ضروری ہے اور مشغولی عدم مشغولی ہی پر کیا موقوف ہے انسان ہی تو ہے ہر وقت طبیعت یکساں نہیں رہتی کسی وقت خادم کی طبیعت پر کسل ہوتا ہے اور اپنی طبیعت بشاش دیکھی ، اپنے سب کام اپنے ہاتھ سے کر لیے ، غرض یہ کہ اس کا کوئی معمول یا التزام نہیں کہ وہی کریں سو اگر حدود میں رہتے ہوئے اور ان کے راحت و آرام کا خیال کرتے ہوئے ان سے خدمت بھی لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں آخر ہیں کس مرض کی دعا لیکن بے مروتی اور بے رحمی اور ظلم کا درجہ تو نہ ہونا چاہیے ۔ یہ عورتوں کا طبقہ تو مردوں کے ہاتھ میں مردہ بدست زندہ کا مصداق ہوتا ہے ان کو ستانے سے کتنی رکعت کا ثواب ملتا ہے ۔ اگر ایسی ہی بہادری اور حکومت کا جوش ہے تو کسی قدرت والے پر آدمی حکومت کرے ہم تو جب جانیں مثلا کوئی ملازم ہو اور ہوٹرا اس کو ذرا کچھ کہیں میاں کو حکومت کی حقیقت معلوم ہو جائے ، بعض بے رحم تو حدود سے گزر کر عورتوں کو زدوکوب کرتے ہیں جس کے تصور سے بھی وحشت ہوتی ہے ، عورتوں پر اس قسم کے تشدد کرنا نہایت کم حوصلگی اور بزدلی کی دلیل ہے جو مرد کی شان کے بالکل خلاف ہیں ۔ یہ عرض کر رہا تھا کہ میں بہت سے کام اپنے ہاتھ سے کر لیتا ہوں تو مجھ کو کونسی تکلیف ہوتی ہے اور میرا کون سا کام ہونے سے رہ جاتا ہے بلکہ جیسی مجھے اس سے راحت ہوتی کہ وہ میری خدمت کرتیں اس سے بھی راحت ہوتی ہے کہ ان کو راحت مل گئی ۔ رات کو مجھ کو نیند کم آتی ہے تو گھر والوں کو سوتا دیکھ کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ان کو تو نیند آ رہی ہے ورنہ دو قلق جمع ہو جاتے ، ایک اپنے نہ سونے کا اور نیند نہ آنے کا ایک ان کا پھر گھر سے چلنے کے وقت پوچھتا ہوں کہ کوئی ضروری کام میرے متعلق تو نہیں ، میں جا رہا ہوں اگر کہا کہ کوئی کام نہیں چلا آیا اگر کہا کہ ہے بیٹھ گیا ، مثلا کوئی خط ہی لکھوانا ہے سو اس کام کو پورا کر کے چلا آیا ۔ کھانا کھا کے فارغ ہوا اور پان کو جی چاہا پوچھ لیا کہ پاندان کہاں ہے انہوں نے بتلا دیا اس میں سے پان نکال کر کھا لیا ، آج کل کے نوجوان کا محاورہ ہے کہ بیوی کو رفیق زندگی کہتے ہیں ارے بھلے مانسوں رفاقت کا کوئی حق بھی ادا کرتے ہو یا محض الفاظ ہی الفاظ ہیں ۔ عملی صورت میں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بے چاری کو فریق زندگی بنا رکھا ہے اور سنئے کہ خاوند کی طرف سے تو یہ ظلم اور تشدد اب وہ شکایت کرتی ہے ، ماں باپ سے اکثر وہ بھی اس کو