ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
کسی دنیوی مصلحت سے نہیں تھی ، دین کی مصلحت سے تھی اگر دین کی مصلحت شرکت میں سمجھی ہو گی تو شریک ہو گئے ہوں گے وہ مذہبی آدمی ہیں یہ جواب دیا سو وہ مجھ کو کیا ڈراتے ، جب خود ہی نہیں ڈرے اور میں تو کہتا ہوں کہ اپنے ضروری مصالح پر نظر کر کے اگر کوئی خطرات سے احتیاط بھی کر لے اور اہل قدرت سے ڈرے تو وہ ایسا ہے جیسے شیر سے سب ڈرتے ہیں ۔ میرے متعلق یہ کہنا کہ گورنمنٹ سے ڈرتا ہے بھائی میں تو سانپ سے بھی ڈرتا ہوں ، بچھو سے ڈرتا ہوں حتی کہ بھڑ ، مچھر اور پسو سے بھی ڈرتا ہوں جتنی چیزیں موذی ہیں سب س ڈرتا ہوں تو حکام کی ذد سے نہ ڈرنے کے کیا معنی اور یہ تو ایک فطری چیز ہے جو چیزیں ڈرنے کی ہیں ان سے ڈرنا ہی چاہیے اور ہر ڈر نہ نقص ہے اور نہ مذموم بلکہ بعض موقع پر اس کا عکس نقص ہو گا یہ تو عقل کی بات ہے اور عقل کا اقتضاء ہے کہ ہی چیز اپنی حد پر رہے ورنہ بے حس سمجھا جائے گا جیسے ایک شخص تندرست ہے اس کے تو کوئی سوئی چھبو کر دیکھے تو مزا آ جائے اور ایک مفلوج ہے اس کے اگر چاقو بھی جسم میں گھونپ دیا جائے اس کو خبر بھی نہ ہو گی ۔ اب آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ اس میں بہادری اور عدم بہادری کی کیا بات ہوئی ۔ ایک میں حس ہے ایک بے حس ہے حضرت امور طبعیہ فطریہ وہ چیزیں ہیں کہ انبیاء علیہم السلام جو سب سے زیادہ قوی القلب تھے ان پر بھی ان کا اثر ہوتا تھا ۔ قرآن پاک میں متعدد جگہ حق تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کے واقعات کو ارشاد فرمایا ہے ان میں صریح دلالت ہے کہ ایسی چیزوں سے انبیاء علیہم السلام بھی متاثر ہوتے تھے میں ان واقعات کو عرض کرتا ہوں ۔ حق تعالی فرماتے ہیں موسی علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے : اذھبا الی فرعون انہ طغی فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی دونوں عرض کرتے ہیں : " قالا ربنا اننا نخاف ان یفرط علینا او ان یطغی " اس پر حق تعالی فرماتے ہیں : " قالا لا تخافا اننی معکما اسمع و اری " اور سنئے موسی علیہ السلام اژدھا سے طبعا ڈرے یہ واقعہ بھی قرآن پاک میں موجود ہے حق تعالی فرماتے ہیں : و الق عصاک فلما راھا تھتز کانھا جان ولی مدبرا و لم یعقب یموسی لا تخف انی لا یخاف لدی المرسلون