ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
اور حق تعالی فرماتے ہیں : " یموسی اقبل و لا تخف انک من الامنین " ایک اور واقعہ قرآن پاک میں مذکور ہے جب موسی علیہ السلام حکم خداوندی سے عصا کو زمین پر ڈالتے ہیں تو وہ دوڑتا ہوا سانپ بن جاتا ہے اس پر حکم ہوتا ہے : خذھا و لا تخف سنعیدھا سیرتھا الاولی پکڑو ، ڈرو نہیں اور ایک واقعہ مذکور ہے کہ جب جادوگروں نے اپنا جادو شروع کیا اور سانپ بننے شروع ہوئے تو موسی علیہ السلام کے دل میں خوف کے آثار پیدا ہونے لگے ۔ خواہ خوف کا سبب کچھ ہی ہو جس کو حق تعالی فرماتے ہیں : فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی قلنا لا تخف انک انت الاعلی غرض جو چیزیں ڈرنے کی ہیں ان سے ڈرو اور جو نہ ڈرنے کی ہیں ان سے مت ڈرو اور بالکل خوف نہ ہونا نقص ہے ، فطری کمی ہے ، کمال یہی ہے کہ خوف بھی ہو اور قوت بھی ہو اور امور طبعیہ کا اثر ہونے میں بڑی حکمتیں ہیں ، سب میں بڑی حکمت تو یہ ہے کہ انسان کو اپنا عجز اور ضعف معلوم ہو کر شان عبدیت کا استحضار رہتا ہے جو روح ہے تمام مجاہدات اور ریاضات کی ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ زمانہ غدر میں شریک جنگ ہوئے ۔ اول مرتبہ جو بندوق چلی ثقات نے بیان کیا کہ بیہوش ہو گئے ، اس کے بعد تلوار لے کر خود لڑے ، سو یہ کوئی نقص کی بات نہیں ، طبعی بات ہے عقلی بات جو تھی وہ یہ کہ جنگ میں شرکت کی ، اس میں خوف نہیں ہوا ، دوسری مثال سنئے مثلا حکم ہے کہ طاعون سے بھاگنا جائز نہیں ، آگے دو صورتیں ہیں ایک تو طبعی خوف ہے اس سے اگر وحشت دہشت کے زوال کی تدابیر کرے یا مبتلاء ہو کر علاج کرے جائز ہے بلکہ علاج کرنا ضروری ہے دوسرا عقلی خوف ہے وہ مذموم ہے کہ وہاں سے بھاگے امور طبعیہ کے وجود و عدم کا مدار ایمان یا کفر پر نہیں اس میں سب شریک ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص کہنے لگے کہ میں شیر سے نہیں ڈرتا تو یہ کوئی بہادری کی شرط نہیں ، بہادری یہی ہے کہ گو ڈرے بھی مگر جب موقع آ جائے تو مقابلہ کرے ، ساتھ ہی بچنے کی تدبیر کرے اور اگر عدم خوف مطلقا کمال ہے تو اگر کوئی کہنے لگے کہ میں خدا سے نہیں ڈرتا تو کیا یہ عقل کی بات ہو گی یا بیوقوفی کی ظاہر ہے کہ محض بے وقوفی ہے جیسے ایک بہادر قوم کے ایک بزرگ جنگل میں رہا