گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم کسی کو قرض دو اور وہ مقروض تمہیں ہدیہ دے، یا تمہیں سواری پر سوار کروائے تو تم سوار نہ ہونا اور نہ اس بات کو قبول کرنا، الاّ یہ کہ تمہارے اور اس کے درمیان لین دین کا معاملہ پہلے سے ہوتا چلا آیا ہو۔ (سنن ابن ماجہ: رقم 2432)جی! یہ ایک الگ بات ہے کہ اگر قرضہ دینے سے پہلے بھی دوسرے بندے کے ساتھ ہدیہ و خدمت کا معاملہ تھا، اور اب قرضے کی وجہ سے اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تو ایسی خدمت اور ہدیہ لینا مقروض سے جائز ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرi سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے معلوم کیا کہ میں نے ایک ایسے شخص کو جس سے جان پہچان نہیں تھی، قرضہ دیا۔ اب اس نے مجھے بڑا ہدیہ بھیجا ہے (اب میں کیا کروں ؟) حضرت عبداللہ بن عمرi نے فرمایا کہ اس کے ہدیہ کو واپس کردو۔ (فتاویٰ کبریٰ ابن تیمیہ: 159/6)سالم بن ابی الجعد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباسi کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے یہ مسئلہ پوچھا کہ میں نے ایک مچھلی فروش کو بیس درہم بطور قرض کے دیے تھے۔ اس شخص نے مجھے ایک مچھلی ہدیہ میں بھیجی ہے، جس کی قیمت تیرہ درہم ہے۔ حضرت ابن عباسi نے اس سے فرمایا کہ اب تم اس سے سات درہم کے مطالبہ کا حق رکھتے ہو (اس لیے کہ باقی تیرہ درہم تم وصول کر چکے ہو)۔ (فتاویٰ کبریٰ ابن تیمیہ: 159/6)صحابی رسولﷺ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر قرض جس سے نفع اٹھائے یہ سود کی شکل میں سے ہے۔ (اعلاء السنن: 566/14)_