گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
مگر جب سورہ بقرہ بھی پوری ہوگئی تو آپﷺ نے سورہ نساء شروع کرلی۔ (اس وقت قرآن پاک کی موجودہ ترتیب نہیں تھی) پھر یہ سورت پڑھتے رہے، یہاں تک کہ یہ سورت بھی پوری ہوگئی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سورہ آل عمران شروع کرلی۔ (آگے ان صحابی نے آپﷺ کے پڑھنے کی کیفیت کو بیان کیا) (صحیح مسلم: رقم 772) معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پانچ پانچ سپارے ایک رکعت میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ لوگ غلط خام خیالی رکھتے ہیں کہ قرآن مجید روز ایک پائو سے زیادہ نہیں پڑھ سکتے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ قرآن مجید جتنی زیادہ کثرت سے ہوسکے اس کی تلاوت کرنی چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تو پانچ پانچ پارے صرف ایک رکعت میں پڑھ لیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تہجد میں اتنی دیر تک پڑھتے تھے کہ حَتّٰی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ. ترجمہ: ’’یہاں تک کہ نبی کریمﷺ کے قدموں میں ورم آجاتا تھا‘‘۔یعنی نماز میں کھڑے کھڑے پائوں مبارک متورّم ہوجایا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں ، حالاں کہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہیں ۔ (آپﷺ کے گناہ نہیں تھے، اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی تسلی فرمائی ہے) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:أَفَلَا أَكُوْنَ عَبْدًا شَكُوْرًا. (صحیح البخاري: رقم 4556)ترجمہ: ’’کیا میں اللہ ربّ العزّت کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ‘‘۔کبھی ہم نے سوچا بھی ہے کہ ہم اتنی تہجد پڑھیں کہ کم ازکم پائوں دُکھنے لگ جائیں ، وَرم آنا تو بڑی دور کی بات ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے لیے فکر مند رہیں اور تہجد کے لیے _