گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
یہ تو آقاﷺ کی اپنی امت تعلیم کو ہے کہ احسان کرنے والے کے احسان کو مانو۔ اس کے ساتھ بھلائی کرو۔ بھلائی نہیں کرسکتے، طاقت نہیں ہے، حیثیت نہیں ہے تو پھر اس کے لیے خوب دعائیں مانگو۔ بھلا کب تک؟ جب تک دل گواہی دینے لگے کہ اب بدلہ دے دیا ہے۔اور ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ اگر لڑکی والے جہیز میں بہت کچھ بھی دے دیں ، مگر پھر بھی لڑکا اور اس کی ماں زندگی بھر روتے ہی رہتے ہیں ۔ حالانکہ اگر لڑکی والے جہیز کی صورت میں کچھ دے رہے ہیں تو یہ لڑکی کے باپ کا اِحسان ہے۔ اِحسان کو ماننے کی ضرورت ہے۔ یہ اس کا اِحسان ہے کہ اس نے اپنی بیٹی بھی دی ہے اور ساتھ کچھ سامان بھی دے رہا ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ لڑکی والوں سے کچھ مانگنا یہ نہایت ہی بے غیرتی کی بات ہے۔ اسلام اس چیز کو گوارا نہیں کرتا۔ وہ بہ خوشی و رغبت کچھ دے دیں ، تو ان کا اِحسان ماننے کی ضرورت ہے۔ ان کا شکریہ ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ اس طرح کے رویے کی ضرورت ہے۔ تو فرمایا کہ بدلہ دو، بدلہ نہیں دے سکتے تو اب تم اس کے لیے ذکرِ خیر ہی کر دو۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو امت کے غریبوں کے لیے آسان کر دیا۔ حضرت اُسامہ بن زیدi کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے احسان کرنے کے والے کو جَزَاکَ اللہُ خَیْرًا کہہ دیا، اس نے گویا پوری تعریف کی۔ (سنن ترمذی: رقم 1958)آپ کو کسی نے ہدیہ دیا اور آپ نے اسے کہہ دیا جَزَاکَ اللہُ خَیْرًا (اللہ پاک آپ کو بہترین بدلہ دے) یہ دعا اس کے احسان کا بدلہ ہوگیا۔ Thank You بھی بول سکتے ہیں یا نہیں ، شکریہ بھی بول سکتے ہیں کہ نہیں ؟ یہ تو علماء بتائیں گے، لیکن جَزَاکَ اللہُ خَیْرًا بولنا یہ عین سنت ہے۔_