گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
اسی کی کچھ شاخیں دریا میں جھکی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ اس باغ کا مالک کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ جیلان کے ایک رئیس ہیں ۔ سید عبداللہ سومائی رحمہ اللہ تعالی ، وہ اس باغ کے مالک ہیں ۔ پتا کرکے ان کے پاس پہنچے اور کہا کہ میں نے آپ کے باغ کا سیب کھایا ہے، میں اس کی معافی چاہتا ہوں ۔ آپ مجھے معاف کر دیجیے، اور آخرت میں مجھ سے اس کا مواخذہ نہ فرمائیے۔سید عبداللہ سومائی رحمہ اللہ تعالی جوہر شناس آدمی تھے۔ یعنی ہیرا پہچانتے تھے کہ سعادت کے آثار اس نوجوان کی پیشانی پر نظر آرہے ہیں ۔ کہنے لگے کہ میں تمہیں معاف نہیں کرسکتا جب تک کہ تم میری ایک بیٹی سے شادی نہیں کرلیتے جو آنکھوں سے اندھی ہے، ہاتھوں سے ٹُنڈی، پاؤں سے لنگڑی ہے، زبان سے گونگھی ہے، کانوں سے بہری ہے۔ اگر تم اس اپاہج سے شادی کرتے ہو تو میں تمہیں سیب معاف کر دیتا ہوں ، ورنہ میں تمہیں معاف نہیں کرسکتا اور قیامت کے دن تم سے لوں گا۔ دوست محمد جنگی رحمہ اللہ تعالی پہلے پہل تو پریشان ہوگئے، لیکن پھر خیال آیا کہ زندگی بھر اس لاچار اور معذور عورت کی خدمت کرنا پھر بھی آسان ہے کیونکہ موت تو آہی جائے گی، لیکن قیامت کے دن میں سیب کیسے معاف کرواؤں گا۔میرے بھائیو! وہ ایک سیب کے لیے کتنے بے چین ہوگئے۔ ہمیں بھی اپنے گریبانوں میں جھانک لینا چاہیے۔ وہ مان گئے اس عورت سے شادی کرنے پر اور کہنے لگے کہ آپ مجھے سیب معاف کر دیں ، میں زندگی بھر اپنی بیوی کی خدمت کرتا رہوں گا جو لنگڑی ہے، ٹُنڈی ہے، بہری ہے، گونگھی ہے، اندھی بھی ہے۔ ایسی محتاج کی تو خدمت ہی کی جاتی ہے۔ اب نکاح پڑھا دیا۔ نکاح پڑھانے کے بعد کہا کہ جاؤ، فلاں کمرے میں تمہاری بیوی ہے۔ یہ وہاں گئے تو وہاں پر خوبصورت اور نوجوان لڑکی تھی۔ ہرلحاظ سے صحت مند لڑکی موجود تھی۔ وہ گھبرا کر واپس آگئے کہ شاید میں غلط کمرے میں آگیا۔ _