گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
جب زکوٰۃ کا حکم آیا تو رسول اللہﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنھم کو مختلف جگہوں پر زکوٰۃ کی وصولی کے لیے بھیجا۔ اس کے پاس بھی ایک قاصد بھیجا۔ قاصد نے اسے بتایا کہ دیکھو! تمہارے پاس اتنا اتنا مال ہے، اتنی تمہاری زکوٰۃ بنتی ہے۔ اس نے زکوٰۃ دینے سے عذر کیا اور کچھ غیر مناسب بھی بات کر دی۔ اس قاصد نے اُس کی بات نبیﷺ سے نقل کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورہ توبہ دسویں سپارے میں آیات نازل فرما دیں ۔ اسے کسی نے جاکر یہ آیات سنائیں تو اپنا مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا، مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قبول نہ کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں آیا۔ انہوں نے بھی قبول نہیں کیا۔ آپ کے دنیا سے جانے کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں آیا کہ جی! زکوٰۃ لے لیجیے۔ انہوں نے فرمایا: میرے بڑوں نے نہ لیا، میں نہیں لے سکتا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں آیا، مگر انہوں نے بھی اس کا مال قبول نہیں کیا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور ہی میں وہ مرگیا۔تو کثرتِ مال آدمی کو نفع دینے والا نہیں ہے۔ رزق کی تقسیم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جس کو اللہ نے جتنا دیا اس پر قناعت کرنی چاہیے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ آدمی صبر، شکر سے لگا رہے، اللہ تعالیٰ سے مانگتا رہے۔ حلال طریقے سے جتنا بڑھتا رہے اس میں حرج نہیں ۔ انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پورا کرتا رہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقوں کو پورا کرتا رہے۔ اور جو تجارت کے حقوق ہیں ، مال کے حقوق ہیں ، زراعت کے حقوق ہیں ، زکوٰۃ ادا کرنا، صدقہ دینا۔ تمام چیزوں کی رعایت رکھے تو پھر یہ مال برا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال کی خیر عطا فرمائے اور اس کے شر سے محفوظ فرمائے آمین۔ وَاٰخِرُ دَعَوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ._