گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
اور جس کا غم زیادہ ہوگا، اس کا دل اِدھر اُدھر بھٹکتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی پروا نہ ہوگی کہ کدھر کو چل رہا ہے۔ اور جو اپنا ایک غم بنالے (آخرت کا غم وفکر) اللہ پاک اس کے لیے دنیا کے غموں اور فکروں سے کافی ہوجائیں گے۔ (اصلاح المال لابن ابی الدنیا: رقم 22)جس کی ساری فکر دنیا ہی کی ہوتی ہے وہ نماز میں بھی دوکان پرہوگا۔ ہمارا کیا حال ہے؟ سارا دن دوکان میں ہوتے ہیں ۔ اور جب مسجد آتے ہیں تو دوکان ہمارے اندر آجاتی ہے۔ لین دین بھی زیادہ ہوں گے، پے منٹ بھی زیادہ ہوں گی، سامان رکھنا، گوداموں کے مسئلے، سامان کا آنا جانا، چوری سے حفاظت کا مسئلہ، اکاؤنٹ کا مسئلہ، کتنے لوگ رکھنے پڑیں گے۔ تو جس کے پاس مال زیادہ ہوگا اس کی فکریں زیادہ ہوں گی۔اِمام غزالی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : دنیا کا مال بغیروبال کے نہیں آتا۔ اگر حرام ہے تو وبال واضح ہے۔ اور اگر مال حلال ہے تو کم سے کم وبال یہ ہے کہ مال کی کثرت آدمی کو عبادات کی زیادتی سے روک دیتی ہے۔ عبادت نہیں کرپاتا۔ تہجد نہیں پڑھ پاتا۔ زیادہ بیان میں شریک نہیں ہوپاتا۔ یہ دین کےباقی کاموں میں پیچھے رہتا ہے۔ اس کی دوکان نے اس کو زنجیر ڈالی ہوتی ہے۔ (کیمیائے سعادت)اگر مال حرام ذرائع سے ہے تو عذاب ہے، اور اگر حلال ذرائع سے ہےتو اس کو سنبھالنے میں ، غور وفکر کرنے میں اتنا وقت لگ جائے گا کہ اس بندے کو آخرت کی تیاری کا وقت نہیں مل سکے گا۔ جیسا کہ ابھی حدیث شریف بیان ہوئی کہ جس کا مال زیادہ ہوگا اس کی سوچیں زیادہ ہوں گی، اس کی فکر زیادہ ہوگی۔ اس کا ذہن اِدھر اُدھر بھٹکتا رہے گا۔ ایسے شخص کی اللہ تعالیٰ کو کوئی پروا نہیں کہ کدھر کو جائے، کہاں جائے اللہ کو کوئی پروا نہیں ۔ اور جس شخص نے ایک فکر اختیار کرلی اللہ کی فکر، آخرت کی فکر اختیار، اللہ پاک اس کے لیے دنیا کی ساری فکروں سے کافی ہوجائیں گے۔ تو اگر ہم بھی ایک فکر بنالیں _