گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
ترجمہ: ’’اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے‘‘۔آج ہمارے بعض دوکاندار ایسے ہوتے ہیں جو اپنے سپلائر سے مال ایک دفعہ خریدتے ہیں ۔ چیک سپلائر کو دو دفعہ آتا ہے۔ آرڈر دے دیا اور پچاس ہزار کا مال آگیا۔ دوکاندار نے چیک کاٹ کر دے دیا جس میں مثلاً نوے دن بعد کی تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ یہ چیک تو دوکاندار نے سپلائر کو تھما دیا۔ نوے دن بعد سپلائر نے کہا کہ چلو! بینک سے چیک کیش کراتے ہیں ۔ جب وہ چیک بینک میں ڈالتا ہے تو بینک چیک واپس بھیج دیتا ہے کہ جناب! اس کے اکاؤنٹ میں پیسے نہیں ہیں ۔ تو سپلائر کے پاس دو دفعہ چیک آتا ہے۔ یہ بات بہت غلط ہے۔ ٹال مٹول سے کام نہ لینا چاہیے۔ اگر پیسے موجود ہیں اور خریدنے والا ٹال مٹول کر رہا ہے تو یہ ظلم کر رہا ہے۔مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ. (سنن أبي داود: رقم 3345)ترجمہ: ’’مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے‘‘۔ہم نے دیکھا کہ جس دوکاندار نے اپنے سپلائر کو وقت پر پیسے دے دیے تو اس دوکاندار کو مال کی کبھی کمی نہیں ہوئی۔ یہ اُصول یاد رکھیے! 25سال ہوگئے ہیں تجارت کرتے ہوئے الحمدللہ! جب آپ Payment میں ماسٹر بن جائیں ، اور وقت پر ادا کر دیں تو آپ کو مال کی کوئی کمی نہیں ہوگی اِن شاء اللہ۔ سپلائر زیادہ ہو جائیں گے اور آپ کہیں گے کہ مجھے ابھی مال نہیں چاہیے۔ جب آپ Payment میں سپلائر کو تنگ کریں گے، اس کے بعد پھر آپ کو پریشانی ہی پریشانی ہو گی۔ ہربندہ کہے گا کہ یار! اس کے پاس نہیں جانا، اس کو مال نہیں دینا۔ عزت بھی ختم، کاروبار بھی ختم۔اور چھٹی بات جو آقاﷺ نے ارشاد فرمائی کہ اگر لینا ہو کسی سے تو اس کے اندر سختی نہ کرے۔ گالی گلوچ نہ کرے۔ محبت کے ساتھ حکمت کے ساتھ بات کرے۔ _